پاکستان میں الیکشن لڑنا اتنا مہنگا اور مشکل ہو گیا ہے کہ منتخب نمائندے ہر سطح پر ایسی تجویز کے خلاف ہیں، جو استعفوں پر منتج ہو۔ شاید پی ڈی ایم کی تحریک میں دراڑیں بھی اسی وجہ سے آئی ہیں، کہ ابتدائی حکمت عملی میں، جے یو آئی ف اور پی ایم ایل این کی قیادت، قومی اسمبلی سے استعفے دینے پر تیار تھی۔ دونوں جماعتوں کی پی ڈی ایم میں نمائندگی کرنے والے قائدین، مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز، خود بوجوہ اسمبلی سے باہر تھے جب کہ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے ارکان کی اکثریت استعفوں پر تیار نہیں تھی گزشتہ روز پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر کہا ہے کہ حکومت کو گرانے کا اب بھی واحد طریقہ اجتماعی استعفے ہی ہیں لیکن اب ان کے اس موقف میں نون لیگ شامل نہیں ہے، بلکہ چاہتی ہے کہ وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ پی پی پی تو پہلے ہی اسمبلیوں میں بیٹھ کر یا عدم اعتماد کے ذریعے حکومت گرانے کی حامی تھی،اوراسی اختلاف کی وجہ سے ہی اتحاد سے باہر نکل چکی ہے، اور اب شاید دوبارہ اس پلیٹ فارم پر واپس آنا ممکن نہیں رہا۔ اس کے باوجود بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو، بجٹ کے خلاف اپنی پارٹی کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے، جب کہ شہباز شریف نے بھی حکومت کی اس کمزوری یعنی معیشت پر، سخت مزاحمت کی تیاری شروع کر دی ہے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے پری بجٹ سیمینار ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ یہ درست ہے کہ بجٹ میں زیادہ زور اعدادوشمار اور لفظوں کے ہیر پھیر پر ہی دیا جاتا ہے، اس وقت حکومت کی طرف سے ساری توجہ بجٹ کی منظوری اور اپوزیشن کی بجٹ کی مزاحمت پر ہے۔اب بجٹ منظوری کے بعد تمام پنڈورہ باکس کھلیں گے۔ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی کے باہر ہونے سے پی ڈی ایم کی طاقت بھی ٹوٹ گئی ہے، دوسرا دھچکا نون لیگ میں قیادت اور بیانیہ کے اختلاف کی وجہ سے لگا، اب تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ نون لیگ میں بھی شہباز شریف کا بیانیہ سامنے آرہا ہے۔ قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں، جو بجٹ اجلاس ہوگا، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے کندھوں پر زیادہ بوجھ ہوگا، کیونکہ پیپلزپارٹی نے جو غیر مشروط تعاون کی پیشکش کی ہے، اس سے ان پر مزید دباؤ آگیا ہے، بظاہر ایسا لگتا ہے شہبازشریف کی مفاہمتی پالیسی کامیاب ہوگئی ہے، ان کی ضمانت اور لندن جانے کی اجازت کے خلاف وفاقی حکومت نے اپنی اپیل بھی سپریم کورٹ سے واپس لے لی ہے، مشیر احتساب شہزاد اکبر نے یہ بھی کہہ دیا کہ شہباز شریف ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لیے درخواست دیں۔ حکومت کی طرف سے نرم رویے کا جواب بجٹ منظوری میں ملنا تھا، اور کہا جارہا تھا کہ شہباز شریف بجٹ سے پہلے اور ایوان سے باہر تو خوب گرجیں گے، مگر ایوان میں ہاتھ ہلکا رکھیں گے، اس لیے بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں غیر مشروط تعاون کا اعلان کیا ہے تاکہ شہباز شریف عددی کمی کا سہارا نہ لے سکیں۔ بہرحال کسی بھی حکومت کو آج تک بجٹ منظور کروانے میں مشکل نہیں آئی، موجودہ حکومت تو اب بہت مضبوط نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن کچھ اپنے باہمی معاملاتمیں پھنسی ہوئی ہے اور ارکانِ پارلیمنٹ کسی بھی ایسی تحریک میں ساتھ دینے کو تیار نہیں، جس سے اسمبلیوں کو خطرہ لاحق ہو۔ یہ اچھی پیش رفت ہوئی ہے کہ اپوزیشن سڑکوں سے سیمیناروں میں اور میدانوں سے ایوانوں میں آگئی ہے، اس طرح اب تو واضح ہو گیا ہے کہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے میں کوئی خطرہ نہیں رہا۔