دنیا کو درپیش بڑے مسائل میں سرفہرست گلوبل وارمنگ اور ماحول کو درپیش خطرات ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مادی اور صنعتی ترقی کے نام پر دنیا میں فطرت کے تقاضے جس طرح گزشتہ نصف صدی میں پامال کئے گئے، اس کے باعث ماحولیات کا توازن خراب ہوا جب زمین پر ہونے والی بے قاعدگی کے اثرات خلا میں پہنچ گئے تو موسموں پر فرق پڑنے لگا۔ اس وقت کرہ ارض کا درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے، جس سے محفوظ گلیشئر پگھلنے لگے ہیں، اور اس عمل کے منفی اثرات ساری دنیا پر پڑ رہے ہیں۔ اگرچہ ماحول کو خراب کرنے کی ابتدا مغرب سے ہوئی، صنعتی ترقی، کارخانوں سے بھاری زہریلے دھوئیں کا اخراج، گاڑیوں کی بہتات اور پٹرول جلنے کے اثرات نے خرابی کی ابتدا کی۔ پھر درختوں کی کٹائی اور شہر بسانے کیلیے جنگل اور شاداب و سرسبز علاقوں کی تباہی سے مزید ماحول بگڑا۔ یہ تمام قباحتیں اب ہمارے ہاں رائج ہو چکی ہیں۔ گزشتہ بیس سالوں سے سر سبز اور آباد اراضی رہائشی بستیوں میں تبدیل ہورہی ہے۔ میدانی علاقوں کے ساتھ پہاڑی علاقے بھی اس دست برد سے محفوظ نہیں۔ عام طور پر پہاڑ اور جنگلات ریاست کی ملکیت یا شاملات کی صورت میں اجتماعی ملکیت ہوتے ہیں، جو مشترکہ مفاد کے استعمال بالخصوص چراگاہ کی صورت باقی رکھنا ضروری ہوتا ہے، مگر ایک مخصوص مافیا ان کو بھی ختم کر رہا ہے۔ جن اداروں اور محکموں کی ذمہ داری، ان فطری عنایات کی حفاظت تھی، انہوں نے ہی ان کی تباہی میں سہولت کاری فراہم کی، اور جنگلات کی آبادکاری کی طرف کبھی سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت کی یہ کوشش قابل ستائش ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی ملک بھر میں وسیع پیمانے پر شجرکاری کی مہم کا آغاز کیا۔ یہ دراصل تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت کے جاری کردہ "بلین ٹری" پروگرام کی ہی وسعت ہے۔ یہ بات تنقید کا نشانہ بھی بنی اور اپوزیشن نے اعتراضات بھی کئے کہ شجرکاری کرنا اور چھوٹے پودوں کو حفاظت کے ساتھ پروان چڑھانا دو مختلف کام ہیں اور ان کے درست اعداد و شمار اکٹھے کرنا مشکل ہے، کہ کتنے درخت لگائے گئے اور ان میں کتنے ایسے ہیں جو جڑیں پکڑ کر بڑھنے لگے ہیں۔ عام طور پر سال میں دو بار حکومتی سطح پر شجرکاری مہم تو ہوتی ہے، لیکن اس کی حفاظت نہیں ہو پاتی اگر پاکستان کی تاریخ دیکھی جائے تو صدر ایوب کے دور میں، 1960 کی دہائی میں جنگلات کی حفاظت کا پہلی بار احساس کیا گیا۔ نا صرف نئے درخت لگائے گئے بلکہ درخت کاٹنے پر سزائیں مقرر ہوئیں۔ اسلام آباد کی تعمیر کے دوران لاکھوں نئے درخت لگائے گئے، جن میں ہمارے علاقائی اور روایتی ماحول دوست درختوں کے علاوہ دوسرے ممالک سے نئے اور جلد بڑے ہونے والے درخت بھی منگوائے گئے۔ ان میں سفیدہ کی اقسام اور جنگلی شہتوت ہمارے ماحول کیلئے مفید ثابت نہیں ہوئے، سفیدہ کی نسل کے درخت پانی بہت لیتے ہیں۔ اس لیے ان کی وجہ سے زیر زمین پانی میں کمی ہوگئی،جبکہ شاہتوت نے پولن الرجی کی صورت میں ماحول کو مضرصحت بنا دیا۔ اسی دور میں مارگلہ نیشنل پارک قائم کیا گیا اور اس میں کسی تبدیلی کا راستہ آئینی طریقے سے بند کر دیا گیا، اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں شہر کا 60 فیصد رقبہ گرین ایریا قرار دیا گیا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ پالیسی بھی بدلتی رہی ہے۔جنگلات کی تباہی کا خمیازہ سب بھگت رہے ہیں۔ حکومت کے بلین ٹری منصوبے کو دس بلین تک بڑھا دیا گیا ہے، اور دنیا بھی ہماری اس کاوش کو تحسین پیش کررہی ہے۔ گزشتہ ہفتے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر عالمی کانفرنس کی میزبانی پاکستان کو ملی تھی، جو اس بات کا اعتراف ہے کہ عالمی برادری ماحول کے تحفظ کیلئے ہماری کاوشوں کو اچھی نظر سے دیکھتی ہے، لیکن اس کے باوجود 10 ارب درختوں کی شجر کاری ایک مشکل ہدف ہے، بالخصوص ان کی حفاظت اور آبپاشی کیلئے وسائل کی شدید ضرورت ہے۔ اگر حکومت اس مقصد کیلیے فطری طریقہ کو اپنائے تو اس کے بھی اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، قدرت نے جنگلوں کو آباد رکھنے اور میدانی علاقوں میں درختوں کی کاشت کیلئے ایک نظام رکھا ہے، کچھ پرندے درختوں کے بیچ لے کر دوسرے مقامات پر پھیلانے کا سبب بنتے ہیں، اور کچھ بیجوں کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ ہوا ان کو اڑا کر پھیلا دیتی ہے، یہ بارش کے بعد اپنی جگہ زمین میں بنا لیتے ہیں اور پھر جڑیں پکڑ کر اگ آتے ہیں، دنیا کے کئی ممالک نے اس طریقے کو اپنایا ہے۔ ہر خطے میں پرورش پانے والے درختوں کے بیچ محفوظ کرکے ان کو جہاز کے ذریعے پہاڑوں اور جنگلوں میں پھینکا جاتا ہے، ان بیجوں کا اگر 40 فیصد بھی قدرتی طریقے سے جڑ پکڑے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اسلام آباد میں جنگلی شہتوت کا بیج اسی طرح انڈونیشیا سے لاکر چھوٹے طیاروں کے ذریعے پھینکا گیا تھا، اس درخت نے چند سالوں میں ہریالی تو کر دی، لیکن پولن کی وجہ سے الرجی کا باعث بن گیا۔ اب اگر مارگلہ سمیت خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی علاقوں میں چیڑ، صنوبر، کیل اور دیار کے بیچ کثیر تعداد میں پھینکے جائیں تو، جنگلات کی بحالی کیلئے ایک موثر کوشش ثابت ہو سکتی ہے، اس طرح درخت لگانے میں درکار فنڈز کے غلط استعمال کا خدشہ بھی کم ہوگا، حکومت الزامات سے بچ جائے گی اور شجر کاری کا ہدف بھی پورا ہو جائے گا۔یہ جدید تکنیک جسے’سیڈ بم‘ کہتے ہیں جہاز کے ذریعے بیج گرانے کا یہ عمل زیادہ تر ممالک میں سرانجام دیا جا رہا ہے۔