یاد ماضی ۔۔۔۔

یوں تو زندگی اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ کسی کے پاس  پیچھے مُڑکر دیکھنے کی فرصت ہی نہیں۔ پھر بھی کبھی نہ کبھی کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے کہ سوائے پیچھے مُڑکر دیکھنے کے کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔ صبح سویرے  پروفیسر اسلم فیضی کا ٹیلیفون آیا۔ اب ہماری عمر کے لوگوں کا ایک ہی سہارہ ہے ملاقات کا کہ ایک دوسرے کوٹیلیفون کرکے خیر  خیریت دریافت کر لیں۔ پروفیسر اسلم فیضی ایک بہت ہی اچھے شاعر ہیں اور ہمیں اس مرض  میں مبتلا کرنے کے ذمہ وار بھی یہی شخصیت ہیں۔ ورنہ ہم اچھے خاصے ریاضی پڑھا رہے تھے کہ ان حضرت کی شاعری سنتے ہوئے  (شاعروں کی عادت سے تو سب واقف ہی ہیں کہ جب ان سے کوئی غزل  ہو جاتی ہے تو وہ جب تک کسی کو  نہ  سنا ئیں ان کو صبر نہیں آتا)  ہم بھی اس مرض میں مبتلا ہو گئے۔ہم چونکہ بڑی عمر میں اس مرض میں مبتلا ہوئے تھے اس لئے ہم پر وہ  ا ثرات مرتب نہیں ہو پائے کہ جو عام طور پر شاعروں پر ہوتے ہیں اس لئے ہم نے کبھی اپنی غزل سنانے کیلئے سوائے اسلم فیضی کے کسی سے کبھی اصرار نہیں کیا۔ اسلم فیضی صاحب کیلئے بھی اس لئے کہ ان ہی کی وجہ سے ہم اس مرض میں مبتلا ہوئے تھے۔  فیضی سے ہمارا  تعارف اسلامیہ کالجیٹ سکول میں تدریس کے دوران ہوا تھا۔ اسلم فیضی  ہاسٹل وارڈن بھی تھے۔ ہم اس سکول میں استادکی حیثیت سے بھرتی ہوئے تو ہم چونکہ ”چھڑے“ تھے اس لئے ہمیں سکول کے  خیبرہاسٹل میں رہنے کو جگہ دی گئی۔ ہاسٹل کے وارڈن جناب اسلم  فیضی تھے۔  اسلم فیضی طالب علمی کے دوران ہی اپنی شاعری کیلئے مشہو ر ہوچکے تھے اور اب اچھے خاصے شاعر تھے ویسے بھی کوہاٹ کی سرزمین شاعری کیلئے کافی زرخیز  واقع ہوئی ہے۔ تو ہمیں اپنی شاعری پسندی کے سبب اس ہاسٹل میں اسلم فیضی کی شاعری سننے کی سزا بھی جھیلنی پڑی۔ جس نے ہم میں بھی اُن جراثیم کو اُبھار دیا کہ جن کو ہم اپنی پڑھائی کے دوران ریاضی کی محبت میں کہیں دفن کر چکے تھے۔ یہیں پر ہمیں ایک اور ادبی شخصیت غلام محمد قاصر سے  متعارف ہونے کا شرف حاصل ہو ا جو اسی سکول میں اردو کے استاد تھے اور ان کو بھی ہماری طرح ہی فیضی صاحب کے ہاسٹل میں ہی رہائش کو جگہ ملی۔  غلامحمد قاصر صاحب اردو کے استاد تھے او ر انہوں نے ایک اپنا پرایؤیٹ سکول بھی کھول رکھا تھا  جس میں وہ سکول کے اوقات کے بعد اپنا وقت دیتے تھے۔  ہمیں جلد ہی کالج میں پروفیسری مل گئی اور ہمیں اپنے اس اچھے خاصے ادبی ماحول سے نکل کر  غیر شاعرانہ ماحول میں وقت گزارنا پڑا مگر صوابی کے اس لق و دق صحرائی کالج میں ہمیں  اور تو کچھ ملا یا نہیں ہمیں کچھ  ادبی دوست مل  گئے جنہوں نے ہماری تک بندی کو با قاعدہ شاعری کانام دیا اور ہم بڑے فخر سے شاعری کرتے رہے  اور اگر کبھی پشاور جانا ہوتا تو ہم اپنی ساری کسر جناب اسلم فیضی پر نکالتے۔  بد قسمتی  سے اسلم فیضی صاحب نے بجائے ہم سے بھاگنے کے ہماری تُک بندی کو نہ صرف شاعری کا نام دیا بلکہ ہمیں کوہاٹ لے گئے اور بڑے فخر سے ایک مشاعرے میں ہمیں شاعر کے طور پر متعارف کروایا۔ اس مشاعرے میں  بہت اچھے شاعر اپنا کلام سنا رہے تھے  ہم نے  اپنی تک بندی پیش کی تو خلاف توقع ہمیں کچھ اتنی داد ملی کہ ہم کو خود کو منوانا پڑا کہ ہم اب واقعی شاعر ہو گئے ہیں۔  پچھے سال ہمیں اپنی سردیاں اپنے بیٹے کے پاس اسلام آباد   17 B  میں گزارنے گئے تو اس کی رہائش کے قریب ہی ایک سکول تھا جس کا نام وہی تھا جو ہمارے دوست کے پشاور سکول کا نام تھا۔ ہم وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ یہ ان کا ہی سکول ہے۔ اور وہ کبھی کبھی یہاں آتے رہتے ہیں۔ ہمارے وہاں ہوتے ہوئے تو وہ کبھی نہیں آئے اور ہمیں کبھی پشاور جا کر ان سے ملنے کی سعادت بھی نصیب نہ ہوئی۔ اس لئے کہ ہم اس عمر میں لمبے سفر سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایبٹ آباد سے پشاور خاصا دور ہے۔ خیال تھا کہ اب کے سردیوں میں جب ہم اپنے بیٹے کے پاس سردیاں گزارنے جائیں گے  تو اللہ نے چاہا تو ان سے ملاقات کریں گے۔مگر بدقسمتی سمجھیں کہ ابھی معلوم ہوا ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔قسمت کی بات ہے کبھی کبھی ہم ایک بہت کم فاصلے پر رہتے ہوئے بھی دوستوں سے ملاقات نہیں کر سکتے اور ایک وقت ایسا بھی آپ جاتا ہے کہ یہ ملاقات سرے سے ہی ختم ہو جاتی ہے۔