ٹرین حادثہ اور کینیڈا دہشت گردی۔۔۔۔

ڈھرکی میں ٹرین کے حادثے میں 60 سے زائد افراد کے جاں بحق ہونے اور کینیڈا میں دہشت گردی کے ذریعے پاکستانی خاندان کی ہلاکت پر، ملک میں سوگ کی کیفیت ہے، پاکستان میں ہونے والا حادثہ انسانی غفلت اور نااہلی کا شاخسانہ ہے، جبکہ کینیڈا کا واقعہ اسلاموفوبیا ذہنیت کا مظہر ہے، جہاں تک ریل حادثے کا تعلق ہے تو سچی بات ہے، اس منظم اور مضبوط ادارے کی تباہی اور بدانتظامی میں کسی ایک حکومت پر الزام لگانا بھی قرین انصاف نہیں، یہ کم از کم پچاس سال کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ریلوے نہ صرف مالی خسارے میں سب سے آگے ہے، بلکہ غیر محفوظ اور غیریقینی سفر کیلئے بھی بد نام ہے۔ اس کی وجوہات بھی سب کو معلوم ہیں، ماضی کی حکومتوں نے ریلوے کے اثاثے کھانے اور سیاسی ورکروں کو غیر ضروری بھرتی کرنے پر ہی زور رکھا۔ اگرچہ دنیا بھر میں حادثات ہوتے رہتے ہیں، لیکن 600 کلو میٹر رفتار سے چلنے والی ٹرینوں کے بہت کم حادثے ہوتے ہیں، اور ہر حادثے کی تحقیقات کے بعد، مستقبل میں اس کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدام اٹھائے جاتے ہیں، اس کے برعکس ہم خود ذمہ داری لینے کی بجائے، دوسروں پر الزام لگاتے اور حادثات کے اعداد و شمار میں اضافہ کرتے ہیں۔ جس جگہ یہ حادثہ ہوا، اس سیکٹر میں ہر سال کئی حادثات ہوتے ہیں، اب بھی پٹری کی حالت ریلوے حکام کے نوٹس میں تھی، جو مرمت طلب تھی، لیکن توجہ نہیں دی گئی اور اتنا بڑا نقصان ہو گیا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ریلوے میں سیاسی بھرتیوں پر پابندی لگا کر اور سخت نظم و نسق کے ذریعے معاملات درست کئے جائیں، اس پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے تو بہتری کی امید ہو سکتی ہے، موجودہ وزیر ریلوے اعظم سواتی کوشش تو کرتے نظر آتے ہیں،جہاں تک کینیڈا میں ایک نوجوان دہشت گرد کے ہاتھوں، ایک پاکستانی مسلمان خاندان کی شہادت کا تعلق ہے تو یہ ہمارے لئے تو غم اور افسوس کا لمحہ ہے ہی، مگر دنیا کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ مغرب اور امریکہ میں ایک نفرت کی لہر سر اٹھا رہی ہے، جو مسلمانوں کے خلاف ہے، اس کے اثرات پھیلتے جا رہے ہیں۔ کینیڈا ایک کثیر قومی ملک ہے، جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہے، وہاں کی حکومت اور بالخصوص وزیراعظم جسٹن ٹروڈو روشن خیال اور وسیع القلب ہیں، کینیڈین معاشرہ بھی باہمی احترام اور برداشت کے جذبات رکھتا ہے، لیکن ایک محدود طبقہ بہرحال موجود ہے، جو اپنی مذموم سوچ کے اظہار سے،کینیڈا جیسے ملک کو بھی نفرت کے زہر سے آلودہ کر رہا ہے، یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں اس واقعے کو غیرمعمولی اوردہشت گردی کا واقعہ قرار دیا ہے اور اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ کینیڈا میں اسلاموفوبیا کو برداشت نہیں کیا جائیگااس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی واقعے کو افسوسناک قرار دیا ہے. پاکستان میں حکومتی اور عوامی سطح پر اس دہشت گردی کی شدید مذمت کی گئی ہے۔قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں سے متفقہ طور پر دنیا بالخصوص یورپ اور امریکہ میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے واقعات پر تشویش ظاہر کی گئی اور اس کو عالمی امن کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا گیا، اس کی روک تھام کیلئے عالمی پارلیمانی کانفرنس بلانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے، وزیر خارجہ نے اس واقعہ کو کینیڈا حکومت اور عوام کیلئے ایک امتحان قرار دیا ہے کہ کس طرح اسلاموفوبیا کے اثرات کو زائل کریں گے۔دہشت گردی کا نشانہ بننے والا بدقسمت خاندان لاہور سے تعلق رکھتا تھا۔ خاندان کے سربراہ سلیمان افضل، اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال میں فزیوتھراپسٹ کی حیثیت سے کام بھی کرتے رہے ہیں۔وہ، ان کی والدہ، اہلیہ اور بیٹی شہید ہو گئے جبکہ نو سالہ بیٹا زخمی ہوا ہے۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کینیڈا اور امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں پاکستانی ڈاکٹر، انجینئر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر اپنی مہارت سے نام کما رہے ہیں۔ ان ممالک کی ترقی اور معاشرے کی تکمیل میں ان کا کلیدی کردار ہے۔اب تو تجارت اور سیاست میں بھی پاکستانی کامیابی کے جھنڈے گاڑھ رہے ہیں۔ان کی ترقی سے کچھ طبقات حسد کا شکار ہیں، جس کو وہ مذہبی منافرت کی آڑ میں ظاہر کرتے ہیں۔اس رجحان کو تقویت اس وقت ملتی ہے، جب یورپ میں کسی مسلمان کے انفرادی فعل اور جرم کو بنیاد بنا کر، حکومتی سطح پر اسلام کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔اگر یورپ میں حکومتیں مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویہ ترک کر دیں تو اسلاموفوبیا کی روک تھام ہو سکتی ہے۔اس کے لیے نیوزی لینڈ اور کینیڈا کی مثال قابل تقلید ہے، جہاں مسلمانوں سے نفرت اور دہشت گردی کے واقعات پر حکومت اور وزرائے اعظم نے آگے بڑھ کر اسلاموفوبیا سے نفرت اور مسلمانوں سے محبت کا کھل کر اظہار کیا ہے۔اس رویہ سے دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔