بجلی رے بجلی

ہم کہ ٹھہرے خالص دیہاتی۔ہمیں کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ یہ ہم نے کیوں اپنے گلے میں بجلی کا پھندا ڈال لیا ہے کیا جب ہمارے ہاں بجلی نہیں تھی تو کیالوگ زندہ نہیں رہتے تھے۔ ہم نے اپنی ساری پڑھائی کے دورا ن بجلی کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ ہاں یونیورسٹی میں ہاسٹلوں میں جب رہے تو احساس ہوا کہ بجلی بھی کوئی شے ہوتی ہے اور اس کی افادیت بھی ہوتی ہے۔ ورنہ ایک زمانہ توہم نے دیئے کی لو میں راتوں کو سکول کا کام کیا ہے اور اسی دیئے کی لو میں ہم نے میٹرک، انٹر اور بی اے کے امتحان پاس کئے ہیں۔ ہاں ایم ایس سی میں ہمیں یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں رہنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ بجلی بھی کوئی شے ہے اور اس سے بھی استفادہ کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنے دیئے کی روشنی اب بھی اچھی لگتی ہے مگر اب زمانہ بہت آگے جا چکا ہے اور پورے ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی بجلی نے اپنے ڈیرے جما لئے ہیں اورا ب تو ایک گھنٹے کے لئے بھی اگر بجلی چلی جائے تو تڑپ جاتے ہیں اور بجلی شکایت گھر میں ٹیلی فون کھڑکنے شروع ہوجاتے ہیں کہ بجلی کہاں غائب کر دی ہے۔ اب تو سوچتے ہیں کہ ہم بھی کس زمانے میں رہ رہے تھے کہ دیئے اور لالٹین کی روشنی میں رات بھر کتابوں میں سر دیئے رہتے اور صبح جو اپنی آنکھوں اور نا ک کا حال ہوتا وہ سنانے کی بات نہیں ہے۔مگر کبھی احسا س ہی نہیں ہوتا تھاکہ ہم نے رات جو دیئے کی روشنی میں سبق یاد کیا ہے اُس نے ہماری آنکھوں اور ناک کا کیا حال کیا ہے بس خوشی یہ ہوتی تھی کہ کلاس میں اساتذہ کرام کے سامنے ہم سرخرو ہو جاتے۔کہاں رات رات بھر دیئے یا لالٹین کی لو میں کتابوں پر جھکے رہنا اور کہاں بستر میں گھس کر بھی کتابوں سے دوستی نبھا لینا۔ پھر تو عادت ہی ہو گئی کہ جب تک سو وارڈ کا بلب روشن نہ ہو کتابوں کے حرف ہی نظر نہیں آتے۔ یہ انسانی جبلت ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں خود کو ایڈجسٹ کر لیتا ہے مگر جب اوپر سے نیچے جانا پڑے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔  وقت گزرتا گیا اورہمارے پودکے لوگ تعلیم سے فارغ ہوئے تو نئے طالب علموں کے لئے گھر گھر اور گاؤں گاؤں بجلی کادور دورہ ہو گیا اور کسی کو لالٹینیں یاد تک بھی نہیں۔اب جب کبھی بجلی چلی جاتی ہے تو پھر ہمیں اپنی پرانی روش پر جاناپڑجاتا ہے۔ ہم نے تو اب گاؤں میں بھی دیئے اور لالٹینیں کباڑ خانے کی نذر کر دی ہیں مگر ا ب بھی ہمیں بجلی یاد کروا دیتی ہے کہ ا پنی اوقات کو نہ بھولو اور ہمیں کبھی کبھی اپنے پرانے ساتھیوں کو بلانا پڑ ہی جاتا ہے۔ اسی لئے ہم نے وہ پرانی اشیاء یادگارکے طور پر اپنے پاس سنبھال کررکھی ہوئی ہیں اور ان میں تیل بھی ڈالے رکھتے ہیں اور جونہی بجلی گھر سے ہمیں داغ مفارقت کا حکم ملتا ہے ہم جلدی سے پرانے وقتوں میں چلے جاتے ہیں اور وہی اپنی طالب علمی کا دور ہوتا ہے اور ہم ہوتے ہیں اورسچی بات ہے کہ ہمیں وہ تکلیف بھی نہیں ہوتی کہ جو ہمارے پڑوسیوں کو بجلی چلے جانے سے ہوتی ہے۔مگر اب بھی چراغ کی افادیت اپنی جگہ برقرار ہے اسلئے کہ یہ اپنا ہے اور اس کے لئے کسی کا احسان نہیں اٹھانا پڑتا‘ اسلئے ہمیں اپنا چراغ بہت اچھا لگتا ہے۔