برسوں کے وعدوں کے بعد، سمندر پار بسنے والے پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔قومی اسمبلی میں بل کی منظوری کے وقت اگرچہ اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی تھی، لیکن اب یہ ان کے لیے بھی ناممکن ہے کہ اس کو واپس کریں، اگرچہ ووٹ کا حق تسلیم کرنے سے لے کر ووٹ استعمال کرنے تک، درمیان میں کئی مراحل اور قوانین کی تیاری باقی ہے، اگر تمام عوامل مواقف رہے تو توقع رکھی جا سکتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات تک سمندر پار پاکستانی اپنا ووٹ کا حق استعمال کر سکیں گے لیکن جس طرح حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں، رسمی تعلقات کار بھی منقطع ہیں، اس سے تو لگتا ہے کہ آئندہ ماہ الیکشن کمیشن کے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ممبران کی ریٹائرمنٹ کے بعد، نئے ممبران کا چناؤ بھی مشکل ہو جائے گا، اور الیکشن کمیشن عملی طور پر غیر فعال ہو جائے گا اگر بروقت وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان مشاورت اور ممبران کے ناموں پر اتفاق نہ ہوسکا تو سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے علاوہ بلدیاتی انتخابات بھی کھٹائی میں پڑ جائیں گے جن کیلئے خیبر پختونخوا اور پنجاب نے ستمبر اور اکتوبر کا شیڈول دیا ہے۔جہاں تک پاکستان کے ان شہریوں کے حق رائے دہی کا تعلق ہے، جو ملک و وطن کے اصل وفادار اور "کما پوت" ہیں، جن کی محنت اور ترسیل زر کی وجہ سے ملک مالی بحران سے نکلنے لگا ہے، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ماضی کی ہماری کوئی بھی حکومت، ان ہم وطنوں کو یہ حق دینے میں ناکام رہی ہے۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں کے اوورسیز ونگ قائم ہیں۔دوسرے ملکوں میں رہنے والے پاکستانی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کیلئے فنڈنگ اور سیاسی قیادت کیلئے دوروں کا انتظام کرتے ہیں، لیکن ان کو پارلیمنٹ میں لاکر عملی سیاست اور ملک کی خدمت کرنے کا حق کبھی تسلیم ہی نہیں کیا گیا بلکہ جو پاکستانی دوہری شہریت رکھتے ہیں، ان کو بھی الیکشن لڑنے کا حق نہیں ہے۔ اب موجودہ حکومت نے ان کو یہ رعایت دی ہے کہ وہ دوہری شہریت کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں، لیکن جیتنے کی صورت میں پارلیمنٹ کا حلف اٹھانے سے پہلے دوسرے ملک کی شہریت چھوڑنا پڑے گی۔ موجودہ حکومتی پارٹی، تحریک انصاف نے تو سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا وعدہ بھی کر رکھا تھا یہ وعدہ تو خیر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے منشور میں بھی شامل ہے، مگر کسی نے اس جانب کبھی کوئی پیش رفت نہیں کی اب قومی اسمبلی میں حکومت نے بل پیش کیا تو اپوزیشن نے مخالفت کی ہے، لیکن یہ بل پیش کرنے کے طریقہ کی وجہ سے ہے، ورنہ اس وقت یہ ممکن ہی نہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اس سے پیچھے ہٹ سکیں، کیونکہ زیادہ مخالفت کی صورت میں پی ٹی آئی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے، پاکستان میں ممکنہ طور پر کم ہونے والے ووٹوں کی تلافی کر لے گی اس وقت زیادہ اہم معاملہ پولنگ کے طریقہ کار کا ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ آئندہ عام انتخابات بائیو میٹرک اور الیکٹرونک مشین کے ذریعہ ہوں، اس طرح دھونس دھاندلی اور ووٹوں کے تھیلے چوری ہونے کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔اب سب جانتے ہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پیپلز پارٹی کس طرح ضمنی الیکشن جیتی ہیں، لیکن دھاندلی کا الزام حکومت پر ہی آتا ہے اسی لیے حکومت کی کوشش ہے کہ الیکٹرونک مشینوں کے ذریعے ہی پولنگ ہو جبکہ اپوزیشن روایتی طریقہ پر زور دے رہی ہے۔ اب انتخابی اصلاحات کے بل میں بھی جدیدطریقے کی منظوری لے لی گئی ہے لیکن ابھی تک الیکشن کمیشن بھی اس پر مطمئن نہیں ہے۔سمندر پار پاکستانیوں کیلئے تو الیکٹرونک مشینوں کے ذریعے ہی ووٹ ڈالنا ممکن ہوگا، یہ اگر حکومت کیلئے امتحان ہے تو اپوزیشن کیلئے بھی فیصلے کی گھڑی ہے۔اگر سمندر پار پاکستانیوں کی حمایت حاصل کرنی ہے تو پھر حکومت سے تعاون کرکے انتخابی اصلاحات مکمل کرنا ضروری ہیں اور اس کی ابتدا الیکشن کمیشن کے آئندہ ماہ ریٹائر ہونے والے ممبران کی جگہ نئے ممبران کی نامزدگی کیلئے مشاورتی عمل سے ہونی چاہئے، تاکہ کوئی آئینی خلا پیدا نہ ہو۔