تو میں عرض کررہا تھا کہ اشفاق حسین کو گلہریاں پسند نہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میں نے ایک روز اس سے پوچھا کہ تم اپنے گھر کی تمام کھڑکیاں مقفل رکھتے ہو۔ باہر خزاں کے بدن کو ہلکی سی ٹھنڈک دینے والے موسم ہیں اور ہوا میں ایک زرد مہک ہے تو تم ایک دو کھڑکیاں کھول کیوں نہیں دیتے۔ یوں اندر کی ہوا بوسیدہ ہوجاتی ہے۔ کہنے لگا۔ ”تارڑ بھائی میرا بھی جی چاہتا ہے کہ باہر کے موسموں کو اندر آنے دوں لیکن کیا کروں کہ ان کیساتھ گلہریاں بھی آجاتی ہیں اور میرے پاس اتنے ڈالر نہیں کہ میں گلہریاں افورڈ کرسکوں“۔”کیا مطلب کہ افورڈ کرسکوں۔ گلہریوں کا ڈالروں سے کیا تعلق۔“ اشفاق نے بے حد رنجیدہ ہوکر اپنی گلہری داستان شروع کی۔ ”پچھلے برس یہی دن تھے۔ میں نے کھڑکیاں کھول رکھی تھیں۔ ایک شب محسوس ہوا کہ بیڈ روم میں کوئی شے ہے پھدکتی پھرتی ہے۔ یہ ایک گلہری تھی۔ وہ کبھی کسی صوفے کے نیچے گھس جاتی اور کبھی خوراک کی تلاش میں کچن کی تلاشی لینے لگتی۔ میں نے اس کا پیچھا کرکے ششکارتے ہوئے گھر سے باہر نکالنے کی کوشش کی پر اس نے میری درخواست ماننے سے انکار کردیا۔ بستروں کے نیچے‘ غسل خانے میں‘ صوفوں تلے ہر جگہ میں اس کی منت کرتا پچکارتا پر وہ اپنے لمبے دانت مسکراہٹ میں پیش کرکے غائب ہوجاتی۔ مجھے بہرصورت اسے گھر سے نکالنا تھا۔ اس لئے بھی کہ وہ میرے اعصاب پر سوار ہوگئی تھی اور اس لئے بھی کہ کینیڈا کے جنگلی حیات کے تحفظ کے قانون کے مطابق ایک جانور کو قید کر لینا جرم ہے اور اگر کوئی شکایت کردیتا تو مجھے جرمانہ ہوسکتا تھا اگر قید نہ ہوتی تو۔۔ چنانچہ میں نے ادھر ادھر سے معلومات حاصل کیں کہ اگر آپ کے گھر میں ایک گلہری داخل ہوجائے اور باہر نکلنے کا نام نہ لے تو اسے باہر کیسے نکالا جاسکتا ہے معلوم ہوا کہ گھروں میں اکثر گلہریاں داخل ہوکر باہر نہیں نکلتیں اور انہیں باہر نکالنے کیلئے ایکسپرٹ حضرات کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ چنانچہ میں نے ایک ایسی ہی کمپنی سے رجوع کیا جو گھروں سے گلہریاں نکالنے کا کام کرتی تھی۔ ان کے ماہرین میرے گھر میں آئے۔ پہلے تو انہوں نے گلہری کو تلاش کرنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے لیکن وہ دھن کی پکی نکلی اور فیض صاحب کی شاعری کے قریب ہوکر بیٹھی رہی۔ تب ایک ماہر نے باہر لان میں جاکر ایک مشین چلائی جس میں سے ایک خاص قسم کی خوشبو برآمد ہونے لگی۔ یہ خوشبو گلہریوں کی نہایت پسندیدہ تھی چنانچہ میری گلہری بھی اس خوشبو کی تاب نہ لاسکی اور مخمور حالت میں گھر سے باہر آگئی۔ گلہری نکالنے کے لئے مجھے مبلغ ڈھائی سو ڈالر ادا کرنے پڑے۔ وہ دن اور آج کا دن میں اپنے گھر کی تمام کھڑکیاں مضبوطی سے بند رکھتا ہوں۔میں نے سوچا کتنا واہیات ملک ہے ایک گلہری کو قید سے نکال کر تازہ ہوا میں آزاد کرنے کیلئے اتنا تردد کرتا ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ ہم سے تو گلہریاں اچھی۔ پاکستانی نہیں کینیڈین گلہریاں۔ اگلے روز اشفاق مجھے ٹورنٹو کے ڈاؤن ٹاؤن میں لے گیا۔ وہ مجھ نابینا کو راستے دکھاتا تھا ورنہ مجھے تو کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ جرمن کونسل جنرل کے ہاں ویزا کی درخواست جمع کروائی اور رسید حاصل کرکے باہر آگئے۔۔ ٹورنٹو سے وابستہ مسی ساگا کے آرٹ سینٹر کے ایک ہال میں اشفاق نے میرے لئے ایک تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا۔ دعوت ناموں کے علاوہ مقامی اردو اخباروں میں بھی اس کا تذکرہ تھا چنانچہ اسے کینیڈا کے معیار کے مطابق ایک خاصی پرہجوم تقریب قرار دینے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ یعنی ہال میں جگہ کم تھی اور حاضرین زیادہ۔ ثروت محی الدین بھی ٹورنٹو میں تھیں چنانچہ وہ بھی مہمان تھیں۔ حمایت علی شاعرنے تقریب کی صدارت فرمائی۔ میں نے چند سنجیدہ اور کچھ غیر سنجیدہ تحریریں پڑھیں۔ سنجیدہ تحریریں جو میرے ناولوں کے حصے تھے انہیں حاضرین نے سنجیدگی سے سنا اور غیر سنجیدہ تحریروں یعنی کالموں کو باقاعدہ غیر سنجیدگی سے سنا۔پھر حاضرین کے ساتھ ایک مکالمہ ہوا۔ حمایت بھائی نے میرے بارے میں ایک محبت بھری اسی قسم کی تقریر کی جس قسم کی تقریر میں ان کی شاعری کے بارے میں کرسکتا تھا۔ امریکہ اور کینیڈا جانے والے اکثر ادیب اور خصوصی طور پر شاعر عام طور پر اپنی کتابوں کا ایک سوٹ کیس بھی اپنے ہمراہ لے کر جاتے ہیں اور تقریبات میں شامل خواتین و حضرات بخوشی یہ کتابیں خرید کر شاعر کو ڈالروں سے مالا مال کر دیتے ہیں کیونکہ وہ وضع دار لوگ ہیں۔ مجھے اس روایت کا علم تو تھا لیکن میں اپنی نالائقی کی وجہ سے ایسا نہ کرسکا۔ اس کا پہلا تجربہ مجھے فلوریڈا میں ہوا تھا جب وہاں مجھ سے دریافت کیا گیا کہ آپ اپنے ہمراہ اپنی دستخط شدہ کتابیں تو لائے ہوں گے‘ ہم انہیں خریدنا چاہیں گے۔یہاں بھی متعدد لوگوں نے یہی سوال کیا اور مجھے خالی ہاتھ آنے پر بے حد شرمندگی ہوئی۔ میں نے سوچ رکھا ہے کہ اگر آئندہ کوئی ایسا موقع ملا تو اپنے ہمراہ صرف ایک ٹوتھ برش لاؤں گا اور ایک گٹھڑی اپنی کتابوں کی سر پر اٹھا کر لاؤں گا اور متمول ہوجاؤں گا۔ ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران جب مجھ سے یہی سوال پوچھا گیا تو میں نے قدرے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ دیکھئے میں کتابیں لکھنے والا ہوں۔ بیچنے والا نہیں۔ ویسے ان ملکوں میں مقیم جو لوگ ادب کے رسیا ہیں ان کا نکتہ نظر بھی درست ہے کہ وہاں ادبی کتابیں میسر نہیں ہیں اور ان کو طلب ہوتی ہے وہ پڑھنا چاہتے ہیں تو اگر ادیب اور شاعر اپنے ہمراہ اپنی تخلیقات لے آتے ہیں اور ڈالروں میں فروخت کرتے ہیں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ تقریب کے بعد جس طور خواتین و حضرات نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا مجھے یوں لگا کہ گویا میں اپنے وطن میں ہوں۔