مشکل حالات میں متوازن بجٹ۔۔۔۔۔

مشیر خزانہ شوکت ترین نے اپنے تقرر کو درست ثابت کرکے دکھا دیا ہے، اور11جون کی شام ایک ایسا بجٹ پیش کیا، جس سے عوام کو ریلیف ملنے کی امید ہے، البتہ اپوزیشن کو مایوسی ہوئی ہے، کیونکہ اپوزیشن سمیت، کوئی بھی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف کے سامنے اپنے موقف پر ڈٹ جائیگی اور بجلی کے نرخ بڑھانے سمیت مختلف سبسڈیز ختم کرنے سے انکار کر سکے گی، ماضی میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا۔ یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ اگر ایک سال تک بجلی کے نرخ منجمد رہیں، پیٹرولیم منصوعات کی قیمتیں بھی نہ بڑھائی جائیں تو مہنگائی کنٹرول کرنا آسان ہوجاتا ہے، پہلی بار مشیر خزانہ شوکت ترین نے عالمی مالیاتی ایجنسی کے سامنے دلیری کے ساتھ غریبوں کا مقدمہ لڑا، اور اپنا موقف تسلیم کروا لیا۔ تنخواہوں میں اضافہ اگرچہ سرکاری ملازمین کے مطالبات اور توقعات سے کم ہے، لیکن ٹیکسوں میں چھوٹ سے جو ریلیف دیا گیا ہے، اس سے قوت خرید میں اضافہ ہوگا، اگرچہ ابھی تنخواہ کے بنیادی سکیل میں اضافہ نہیں کیا گیا، لیکن چھوٹے سکیل کے ملازمین کو مہنگائی الانس ملا کر قابل قبول ریلیف مل جائے گا۔ پہلی بار نہ صرف عام آدمی بلکہ چھوٹے تاجروں کا بھی خیال رکھا گیا، مزدور کی کم سے کم اجرت کے ساتھ احساس پروگرام کی امداد میں بھی اضافہ کیا گیا، سب سے اہم ریلیف، بینکنگ ٹرانزیکشن اور دیگر مدات میں ود ہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ ہے، بالخصوص پچاس ہزار سے زائد بینک سے نکلوانے پر ود ہولڈنگ ٹیکس، جو اسحاق ڈار نے لگایا تھا، اس کی وجہ سے نہ صرف عام تاجر پریشان تھا، بلکہ بینک بھی خوش نہیں تھے۔ اس سے روزانہ ٹرانزیکشن والے صارفین اور تاجروں نے بینک میں پیسے رکھنا ہی چھوڑ دیا تھا، اب ہر کوئی اپنے پیسے، اپنی مرضی اور ضرورت کے تحت نکلوا سکے گا۔ چھوٹی گھریلو صنعتوں کی رجسٹریشن اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ کے علاوہ 164 ٹیکسٹائل اشیا ڈیوٹی سے مستثنی کر دی گئی ہیں، اپنی بجٹ تقریر میں موبائل فون کی لمبی کال (تین منٹ سے زائد) پر بھی ٹیکس لگانے کی تجویز دی تھی, بلکہ ایس ایم ایس میسج پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیا تھا, یہ اچھی تجویز تھی اور اس سے لمبی کالز سے پیدا ہونے والے سماجی اور معاشرتی خرابیوں کی روک تھام بھی ہو سکتی تھی، لیکن پوسٹ بجٹ بریفنگ میں یہ فیصلہ واپس لینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ زرعی اجناس کے گوداموں، ٹریول اینڈ ٹورز سروسز اور سیکیورٹی سروسز پر بھی ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی ہے، جبکہ چھوٹے کاروبار کیلئے پانچ لاکھ تک بلا سود قرضہ اور چھوٹے مکان کیلئے 20لاکھ روپے کے قرضے کی سہولت دی گئی ہے۔کیپیٹل گین ٹیکس کی شرح بھی15فیصد سے کم کرکے 12.5فیصد کردی گئی ہے، خیبرپختونخوا میں ضم اضلاع کی ترقی کیلئے 54ارب روپے اضافی رکھے گئے ہیں۔ اگر ملک کی حالت دیکھی جائے، 38ہزار ارب روپے کے قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت کے ساتھ، جبکہ مجموعی قومی بجٹ میں سے3060ارب روپے صرف قرضوں پر سود ادا کرنا ہو، تو اتنا متناسب اور عام آدمی کا بجٹ بنانا بہت مشکل نظر آ رہا تھا۔ اپوزیشن پہلے ہی الزامات لگا رہی تھی کہ حکومت غریب پر مزید بوجھ ڈالے گی، کیونکہ ان کو اس کے بغیر بجٹ کی تیاری ناممکن دکھائی دیتی تھی، دوسرا الزام یہ تھا کہ بجٹ آئی ایم ایف کا تیار کردہ ہوگا، مگر ان دونوں باتوں کی نفی ہوگئی ہے، ہر ٹیکس کو طے کرتے وقت عام آدمی کی مشکلات کو مدنظر رکھا گیا، بہت سے ٹیکس ختم کر دئیے گئے یا ان کی شرح میں کمی کی گئی اور یہ غالبا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، البتہ پرتعیش اشیا کی درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا، اس کا بڑا مقصد مقامی مصنوعات کی حوصلہ افزائی اور درآمدات کی حوصلہ شکنی ہے۔ ہماری معیشت کا سب سے بھاری پتھر، درآمدات اور برآمدات میں وسیع فرق ہے، جب تک یہ توازن درست نہیں ہوتا، بجٹ خسارہ رہے گا۔ اگر حقیقت دیکھی جائے تو اس بجٹ میں سے خامیاں نکالنا اپوزیشن کے لیے بھی مشکل ہے، لیکن چونکہ ہر حال میں حکومت کی مخالفت کرنا ضروری ہے، اور موجودہ پوزیشن کا تو مشن ہی یہی ہے کہ حکومت سے تعاون نہیں کرنا، لیکن اپوزیشن لیڈر کو اپنی تقریر تیار کرنے کیلئے بہت محنت کرنا پڑے گی۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو اس کیلئے بجٹ معاشی سے زیادہ سیاسی بقا کیلئے بھی اہمیت رکھتا ہے، اب یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت کا وہ پیرڈ شروع ہے، جس کی بنیاد پر اگلے الیکشن لڑے گی۔ گزرے تین سال تو مشکل فیصلوں کے ساتھ معاشی استحکام کرنا تھا، اس کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط بھی قبول کرنا پڑی، لیکن اب وزیراعظم نے صاف لفظوں میں آئی ایم ایف کی ناروا شرائط قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے پانچ بار اوگرا کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی سمری آئی، مگر وزیراعظم نے ان کو بھی مسترد کر دیا، اب بجٹ میں پٹرولیم لیوی کی شرح بڑھائی گئی ہے، لیکن اس کا اثر قیمت پر نہیں پڑے گا۔ سب سے بڑی مزاحمت تو بجلی کی قیمتوں میں اضافے کیلئے کی گئی ہے، آئی ایم ایف کا بھی مسلسل اصرار ہے اور گردشی قرضوں کی حالت بھی بجٹ کیلئے بہت بھاری ہے، ان سے نجات کیلئے آسان راستہ یہی اپنایا جاسکتا ہے کہ بجلی کے بل میں اضافہ کر کے، انتظامی ناکامی کا بوجھ عوام پر ڈالا جائے، مگر وزیر اعظم نے اب صاف انکار کر دیا ہے اور دیکھا جائے تو عوام کیلئے سب سے بڑی ریلیف اسی میں ہے۔ تنخواہوں میں اضافے کا فائدہ تو صرف سرکاری ملازمین کو ہی ہوتا ہے، لیکن بجلی اور تیل کی قیمتیں منجمد ہونے سے عام آدمی کو بھی فائدہ ہوگا۔