قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاسوں کے دوران جو کچھ ہوا قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا،ایوان کے تقدس کو جس طرح پائمال کیا گیا وہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا تاریک باب ثابت ہوا۔اس وقت حزب اختلاف نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر دونوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں لانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ کسی بھی حوالے سے نیک شگون نہیں کیونکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے اس دوران غیر جانبداری کا ثبوت دیا اور اپنی پوری کوشش کی کہ پارلیمنٹ میں ماحول خراب نہ ہو۔سپیکر قومی اسمبلی سے قبل ہی ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر محمد قاسم سوری ایک تعلیم یافتہ،اصول پسند اور نظریاتی سیاسی کارکن ہیں، بلوچستان میں تحریک انصاف کے بانی ارکان میں شامل ہیں اور کوئٹہ شہر کے حلقے سے الیکشن جیت کر پہلی بار قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں، پارٹی قیادت کے فیصلے پر ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے، لیکن اس اہم اور حساس پارلیمانی عہدے پر اپنی کارکردگی، ایوان میں تمام ممبران کے ساتھ یکساں سلوک اور آئین کے مطابق کاروائی چلانے سے قاسم سوری نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ اپوزیشنکا مقصد ہی آئین سازی اور ایوان کی کارروائی میں رخنہ ڈالنا اور حکومت کے ہر اچھے کام کی بھی مخالفت کرنا ہے، اس کے باوجود سپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے بڑے تحمل کے ساتھ اپوزیشن کے منفی رویے کو برداشت کیا اور ان کی اشتعال انگیزی سے صرف نظر کیا۔ قومی اسمبلی میں آئین سازی پر بحث مباحثے کے دوران تلخی پیدا ہونا اور احتجاج ایک معمول ہے، مگر اس میں بھی ایوان کے تقدس اور سپیکر کی نشست کی تکریم کا ہمیشہ خیال رکھا گیا، مگر موجودہ اسمبلی میں پہلی بار سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو دھمکیاں بھی دی گئیں اور چیئر کا تقدس پامال کیا گیا۔ ڈپٹی سپیکر نے اپنے آئینی اور پارلیمانی فرض کی ادائیگی کے دوران کبھی کسی سے زیادتی کی، نہ کسی کی دھونس یا دباؤ میں آئے، ایوان کے اندر ہی نہیں، ایوان کے باہر بھی ارکان اسمبلی کو سہولیات کی فراہمی ہو یا پارلیمنٹ لاجز میں رہائش کے مسائل کا حل، ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹرینز کا ہمیشہ خیال رکھا ہے اور اسی وجہ سے ان کا احترام کیا جاتا ہے، لیکن ایوان کے اندر آئین سازی میں رکاوٹیں ڈالنے یا پارلیمانی کاروائی میں خلل کی وجہ سے ارکان کو آئینی پاسداری کا احساس دلانے میں کبھی کسی کا لحاظ نہیں کیا۔ موجودہ بجٹ اجلاس شروع ہوا تو حکومت نے فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کے منفی رویے کے باعث، برسوں سے التوا میں بڑے قانونی بل پیش کرکے ایوان کی منظوری لی جائے، کیونکہ اس کے بعد 20 دن تک بجٹ پر بحث ہونی ہے, یہ ایک مثبت عمل تھا اور حکومت نے جب بل منظوری کے لیے پیش کرنا شروع کیے، تو آئین سازی نہ کرنے کی ضد پر اپوزیشن نے شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی شروع کر دی، مقصد صرف یہ تھا کہ کسی بھی طرح قانونی بلوں کی ایوان میں منظوری کو روکا جائے، حالانکہ اپوزیشن ارکان کو بھی عوام نے اسی لیے منتخب کیا تھا کہ وہ عوامی اور ملکی ضرورت کے لیے قانون سازی کے عمل کا حصہ بنیں، لیکن اپوزیشن نے شروع دن سے ہی اپنے فرائض منصبی اور حق نمائندگی ادا کرنے سے انکار کیا، حالانکہ بطور پارلیمنٹرین، ہر قسم کی مراعات اور استحقاق حاصل کرتے ہیں۔ اس دن ایوان کی صدارت ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کر رہے تھے، انہوں نے حسبِ معمول قانون سازی کے عمل کو پرامن اور جاری رکھنے کی کوشش کی، اپوزیشن نے ہر حربہ استعمال کیا کہ کاروائی رک جائے، لیکن ڈپٹی سپیکر نے پارلیمانی امور کے مشیر کو آئینی بل شق وار پیش کرنے اور ایوان سے ہاں یا ناں میں منظوری لینے کا عمل جاری رکھا، اسی شورشرابہ اور ہنگامہ آرائی میں اپوزیشن کے کچھ ارکان کورم کی نشاندہی بھی کرتے رہے، لیکن سنجیدہ پارلیمانی کارروائی میں مصروف ڈپٹی سپیکر نے اس کو بھی اپوزیشن کا احتجاج ہی سمجھا اور ایوان میں کورم کی گنتی نہیں کرائی، اس کو جواز بناکر اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر محمد قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی، بہرحال یہ پوزیشن کا حق ہے اور پارلیمانی روایات کے مطابق اس تحریک پر جمعہ کے دن گنتی کرائی جائے گی۔ یہاں یہ امر بھی باعث دلچسپی ہے کہ ڈپٹی سپیکر کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کی دوسری تحریک ہے، پہلی تحریک واپس لے لی گئی تھی۔