سیاست دانوں کی نونک جھونک تو معمول کی بات ہے کہ کسی موقع کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔مگر جہاں تک نونک جھونک کا تعلق ہے تو وہ تو سیاست دانوں میں چلتی ہی رہتی ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ پرانے سیاست دانوں میں یہ ایک حد سے آگے نہیں نکلتی تھی۔اس نوک جھونک میں دوسرے کی عزت کا خیال رکھا جاتا تھا، کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ سیاست دانوں نے کوئی ایسا عمل کیا ہو کہ جس سے سیاست مجروح ہوئی ہو۔ ایک دوسرے پر فقرے بازی اور وہ بھی اپنی حدود میں رہ کر کی جاتی رہی ہے۔ بات ایسے کی جاتی کہ جو کہنے والا اپنا مطلب بھی پورا کر لیتا تھا اور سننے والے کی عزت کو بھی مدِ نظر رکھا جاتا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا کہ سیاست دانوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دی ہوں۔ جہاں تک اسمبلی کا تعلق ہے تو یہ ایوان تو ہوتا ہی اسلئے ہے کہ حکومتی اورمخالفین اراکین ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت اور فقرہ بازی بھی کرتے ہیں اور ملک کیلئے قوانین بھی بناتے ہیں۔ جہاں تک فقرے بازی کا تعلق ہے تو یہ تو اسمبلی کا ایک ضروری عنصر ہے۔ اس لئے کچھ نہ کچھ طفننِ طبع کا بھی انتظام کر لیا جا تا ہے۔ مگر یہ فقرہ بازی بھی ایک حد سے باہر نہیں نکلتی۔اراکین اسمبلی کو ملکی مسائل جیسے سنجیدہ عناصر کا سامنا کرنا ہوتا ہے جو بہت زیادہ سنجیدہ کام ہے اگر اس کام کے کرتے ہوئے طفننِ طبع کا لقمہ نہ ڈالا جائے تو بات بنتی نہیں ہے۔ اور ایسے فقروں میں خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی کی انا مجروح نہ ہو۔ چونکہ مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر بہت زیادہ سنجیدگی سے سوچنا اور بولنا پڑتا ہے اس لئے ماحول بہت زیادہ سنجیدہ ہو جاتا ہے ایسے میں تھوڑی بہت فقرہ بازی جائز ہوتی ہے کہ اس سے ذہن سے وہ بوجھ اتر جاتا ہے جو ملکی مسائل کا سوچتے ہوئے ذہن پر پڑتا ہے۔ اس لئے ہمارے بذلہ سنج سیاست دان کہ جو واقعی سیاست کو سمجھتے ہیں وہ مسائل کی بحثوں میں فقرہ بازیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔ مگر یہ فقرہ بازیاں ایک حد سے آگے نہیں بڑھتیں اور چونکہ اب تو خواتین بھی بڑی تعداد میں ایوان کا حصہ ہیں اس لئے بھی بات کرنے والے کو اپنی زبان پر قابو رکھنا پڑتا ہے۔ تاہم سیاست کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر اسمبلی میں کچھ بے ساختہ پن کا اظہار ہو بھی جائے تو اسے قابل معافی سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایوان میں آنے کیلئے بھی ایک تربیت سے گزرنا ضروری ہے کہ وہاں کس طرح اپنے خیالات کا اظہا رکرنا ہے اور اپنے موقف کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کے موقف کی کمزوریوں کو بھی سامنے لایا جاسکے۔ ویسے مقننہ کا کام ہی قانون سازی ہے اور یہ ایک بہت توجہ طلب اور سنجیدہ کام ہے جس کیلئے خاص ماحول بنانا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ہر شعبے میں تربیتی ادارے ہیں تاہم ایوان کی کاروائی کو چلانے کیلئے بھی ایسے اداروں کی ضرورت ہے کیونکہ یہ سارا کچھ ٹریننگ سے ہوتا ہے۔ اس لئے جو کچھ آج کل اسمبلی میں ہو رہا ہے تو کہنا پڑتا ہے کہ اگر یہی رویہ اختیار کرنا ہے تو اسمبلی کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے یہ بھی اچھا ہوا کہ دیر آید درست آید کے مصداق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایوان کے ماحول کو درست رکھنے اور ایوان کے امور کر چلانے کیلئے معاہدہ طے پاگیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایک مستقل پالیسی دونوں فریقوں پر لاگو ہو اور یقینا ایسا ہوگا بھی تاہم اس کی پابندی کرنا ضروری ہے۔تاکہ مستقبل میں ایسے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جاسکے۔