کورونا نے ایسا حملہ کیا کہ سینکڑوں لوگ اس کا نشانہ بنے۔ باقاعدہ احتیاط اور احتیاطی انجکشنوں سے اس مرض پر بہت حد تک قابو توپالیا گیا ہے مگر اب بھی ڈر موجود ہے اس لئے کہ وبا ء کا سرے سے ابھی خاتمہ نہیں ہوا اوریہ خبریں بھی ہیں کہ اس وائرس نے شکل بدلی ہے اور اب یہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہے۔بھارت، برازیل سمیت جن ممالک میں کورونا نے زیادہ تباہی مچائی ہے اس کی بڑی وجہ اس وائرس کی نئی قسم کا سامنے آنا ہے۔ ایک طرف اگر سائنسدان نت نئی ویکسینز بنانے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف کورونا وائرس کی نئی سے نئی شکل بھی سامنے آرہی ہے۔اب تک اس وباء نے بے حساب معاشی اور جانی نقصانات سے دنیا کو دوچار کیا ہے۔ کچھ یہی صورتحال ہمارے ہاں بھی ہے۔۔ ادھر تعلیم کا جتنا ضیاع ہو چکا ہے اس کا تو مداوا ممکن نہیں ہے مگر جیسے کوششیں ہو رہی ہیں اس کا کچھ تو اثر ہونا ہی ہے۔اب تک تعلیم کا معاملہ زیادہ واضح نہیں کبھی امتحانات کے بغیر پروموٹ نہ کرنے کی باتیں ہوتی ہیں تو کبھی اس کے برعکس موقف سامنے آتا ہے۔اب اگر بغیر امتحان کے پروموٹ نہ کرنے کی پالیسی واضح بھی ہے تو اس سے قبل کئی کلاسز کو بغیر امتحان کے پہلے ہی پروموٹ کیا جاچکا ہے۔ ایک ماہر تعلیم اور ایک استادکے نزدیک یہ کسی طور پربھی مناسب نہیں کہ بغیر امتحان کے کسی کو اگلی کلاس میں جانے دیا جائے۔ یوں بھی بہت سے طالب علموں کے سال ضائع ہوجاتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان طلباء کو بغیر امتحان کے ہی پروموٹ کر دیا جائے۔ اصل میں یہ دکھائی تو اچھا دیتا ہے مگر ایک سال کی پڑھائی اگر ضائع ہو جائے تو وہ ساری زندگی کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی اور جیسا کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ ہر سال کی پڑھائی پچھلے سال کی پڑھائی پر بنیاد رکھتی ہے اس لئے اگر ہم ایک سال کی پڑھائی کو چھوڑ کر اگلے سال میں طلباء کو پروموٹ کر لیتے ہیں تو ان کی ایک سال کی پڑھائی کی کمی طالب علم میں ساری عمر ساتھ رہتی ہے اور اس سے جو کمزوری نصاب میں آتی ہے وہ ساری عمر پوری نہیں ہوتی اور یہ اگلی جماعتوں میں ساری عمر آپ کو نقصان پہنچاتی رہتی ہے۔ اب اگر مجبوری کے تحت ہمیں ایک سال چھوڑنا پڑ رہا ہے تو ہمارے خیال میں بہتر یہ ہو گا کہ اگلے سالوں کی نصاب میں چھوڑے گئے سال کے نصاب کے کچھ ضروری حصے بھی شامل کر لئے جائیں تا کہ طلباء کو وہ کمی نقصان کا باعث نہ بنے جو ایک سال ضائع ہونے سے ان کے راستے میں روڑے اٹکائے گی۔ ورنہ ہوگا یہ کہ ان طلباء کو یہ کمی ساری تعلیمی عمر میں محسوس ہوتی رہے گی او ر ہو سکتا ہے کہ یہ طلبا کے راستے میں روڑے بھی اٹکائے۔ اس لئے کہ اگر آپ کچھ سیڑھیاں چھوڑ کر اوپر چڑھتے ہیں تو اس کا نقصان تو ہوتا ہے نا۔ اس لئے ہم یہ گذارش کرتے ہیں کہ جس سال کی پڑھائی رہ گئی ہے اس کا کچھ ضروری نصاب جو اس کے اگلی تعلیم کے ضروری ہے اس کے اگلے سال میں شامل کر لیا جائے تاکہ اس کی کمی طالب علم کی اگلے نصابوں میں محسوس نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جس موذی مرض نے ہمارے سارے کاروبار زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اس کی احتیاط کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے اور یہ نہ ہو کہ ہم یہ سمجھ کر کہ کورونا نے جان چھوڑ دی ہے،بے احتیاطی کریں اور پھر سے کورونا حملہ آور ہو جائے اس لئے ابھی کچھ عرصے کے لئے جمگھٹوں سے پرہیز ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ گو شادی غمی لازمی امر ہوتا ہے مگر اس میں بھی حتیاط کے دامن کو نہ چھوڑا جائے تاکہ یہ موذی دوبارہ حملہ آور نہ ہو سکے۔ ہم لوگ بہت جلد بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے اور ہم بے احتیاطی کر کے ایک دفعہ پھر سے اُس چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ اس لئے جیسے ہم اس سے قبل متعدی بیماریوں کے بارے میں ہمیشہ محتاط رہے ہیں اس کورونا کے لئے بھی محتاط رہیں (بلکہ اس سے بھی زیادہ)تو بچ نکلنے کے امکانات روشن ہوں گے اور اگر ہم نے بے احتیاطی کو اپنا لیا تو پھر اگر کورونا واپس آیا تو اسکو دفع کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس لئے احتیاط کا دامن مضبوطی سے تھام لیا جائے تو بہتر ہو گا ویسے کسی بھی متعدی بیماری کو آسان نہیں لینا چاہئے اور اس کو دور کرنے کیلئے جو بھی احتیاط معالج بتائیں اس پر لازماً عمل کیا جانا چاہئے۔ اسی میں بہتر ی ہو تی ہے۔