افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ابھی مکمل نہیں ہوا جبکہ مختلف مسائل کھڑے ہونے لگے ہیں۔ ایک طرف امریکہ اپنی جان چھڑانے کے باوجود خطے میں رہنا چاہتا ہے۔ جبکہ گزشتہ دنوں ایک امریکی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے امریکی اڈوں سے متعلق دو ٹوک الفاظ میں انکار کرکے پاکستان کی پالیسی واضح کردی ہے۔امریکہ کے پاس اگرچہ قطر اور بحرین میں فوجی اڈے ہیں، لیکن افغانستان کے اندر اہداف پر ڈرون حملے کرنے کیلئے وہ مناسب نہیں۔ امریکہ کا مقصد افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے، جس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے اور ساتھ ہی چین کے خطے میں مفادات کی راہ روکنا ہے. "ون بیلٹ، ون روڈ" منصوبہ کے ذریعے چین افغانستان سے وسطی ایشیائی ریاستوں تک راہداری بنانا چاہتا ہے۔ جس کے ذریعے چین سے اور پاکستان میں لگائے جانے والے چینی کارخانوں سے مصنوعات سابق سوویت ریاستوں تک پہنچانا مقصود ہے، جب کہ امریکہ اس میں رکاوٹ پیدا کرنے کیلئے خطے میں رہنا چاہتا ہے۔ اس وقت امریکہ اور چین کھل کر ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں جی سیون ممالک کی لندن سربراہ کانفرنس اور پھر برسلز میں نیٹو سربراہ کانفرنس میں امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلانات اور ان پر چین کے ردعمل سے صورتحال واضح ہو چکی ہے اور اب پاکستان کو بھی ایک ہی کشتی میں سوار ہونا ہے. یہ بات بھی واضح ہے کہ اس وقت ہمارے مفادات زیادہ تر چین کے ساتھ وابستہ ہیں اور ہم اس کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتے، اسلئے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کیا ہے۔ مگر ساتھ ہی ہم امریکہ کی دشمنی کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ افغانستان کے حوالے سے ہمارے لئے ایک اور امتحان ترکی کا کابل میں فوج رکھنے کا فیصلہ ہے۔ برسلز میں نیٹو اجلاس کے موقع پر امریکہ اور ترکی کے صدور کے درمیان ملاقات میں بھی اس بات کی تصدیق ہوئی ہے. بڑی عجیب بات ہے کہ ایک طرف نیٹو کے غیر مسلم ارکان ممالک افغانستان سے اپنی افواج نکال رہے ہیں، جبکہ مسلمان رکن ملک ترکی کو وہاں بھیج رہے ہیں، یہ بہت بڑی سازش ہے۔ ترکی نے جس طرح ترقی کی ہے اور شام اور لیبیا میں فوج بھیجی ہے، اس سے یہ مغرب کو چبھنے لگا ہے اور اب سازش کے تحت کابل میں ترک فوج کو بھیجنے پر اکسا رہا ہے۔ صدر طیب اردگان کو شاید افغانستان کی صورتحال کا درست اندازہ نہیں، افغانستان میں ترکی کی ہمدردیاں جنرل رشید دوستم کے ساتھ ہیں، جس کی طالبان کیساتھ دشمنی واضح ہے، بلکہ گزشتہ ماہ دوحہ میں انٹرا افغان مذاکرات کے دوران بھی رشید دوستم کی طالبان کیساتھ تلخی ہو چکی ہے۔ شمالی افغانستان میں دوستم واحد طالبان مخالف کمانڈر ہوگا جو اپنے زیر قبضہ علاقے کا دفاع کر سکتا ہے اور اس کو ترکی کی مدد حاصل ہے۔ یہ بالکل واضح ہے مستقبل قریب میں کابل پر طالبان کا تسلط ہوگا، اس صورت میں وہاں ترکی کی فوج کو طالبان کی مخالفت کا سامنا ہوگا۔ جس طرح امریکہ طالبان کے حملوں کا الزام پاکستان پر لگایا کرتا تھا یا موجودہ حکومت کرتی ہے، اسی طرح ترکی بھی پاکستان کے حوالے سے بدگمان ہو گا اور شاید امریکا سمیت یورپ کی بھی یہی خواہش ہے۔ پاکستان کا فرض ہے کہ وہ سفارتی کوششوں سے ترکی کو روکے اور وہ اس وقت کابل میں فوج بھیجنے کی فیصلے سے دستبردار ہو جائے۔ مسلمان ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے اور دشمن بنا کر امریکہ اپنے مفادات پورے کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور ترکی جیسے تیزی سے ترقی کرتے اور عسکری لحاظ سے مضبوط ممالک بھی افغانستان کی دلدل میں پھنس جائیں۔