موجود بجٹ اجلاس میں پہلے چار دن تو حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی حاضری قابل رشک رہی، لیکن جب صلح ہو گئی تو پھر حاضری بھی کم ہوتی گئی، اگر بجٹ پر بحث کا جائزہ لیا جائے تو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ بحث میں حصہ لینے والے ارکان نے بھی بجٹ دستاویز کا مطالعہ کرنے اور تجاویز کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، بلکہ اپنی اپنی قیادت کی تعریف اور مخالفین کی تنقید پر زیادہ وقت لگایا۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ایک سینئر پارلیمنٹرین ہیں، طویل عرصہ پنجاب جیسے بڑے صوبے کی حکمرانی کرتے رہے، ان کے ساتھ معاشی ماہرین کی ٹیم ہے، جس نے بجٹ پر تقریر تحریر کی تھی، لیکن اڑھائی گھنٹے کی تقریر میں بجٹ پر آدھا گھنٹہ ہی بات کی ہو گی، زیادہ وقت سیاسی باتوں پر لگایا، ان کی تقریر پر ہنگامہ آرائی کی وجہ بھی یہی تھی کہ ابتدا ہی سے وہ حکومت پر تنقید کرنے لگے تھے۔ دوسری طرف وزیر خزانہ شوکت ترین پارلیمنٹ کاروباری طبقے اور مختلف سٹیک ہولڈر سے ملاقاتیں اور مذاکرات کرتے رہے، اس دوران بہت سی بجٹ تجاویز، ٹیکسوں کے نفاذ اور وصولی میں ایف بی آر کے کردار اور ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل پر وضاحتیں بھی ہوتی رہیں اور جائز مطالبات تسلیم بھی کیے گئے، اسی طرح پارلیمانی مجالس قائمہ برائے خزانہ میں بھی روزانہ کی بنیاد پر بحث جاری رہی اور بہت سی تجاویز میں تبدیلی کی سفارش کی گئی۔ اس پارلیمانی اور بیرون پارلیمنٹ حرکت پذیری سے ایسے لگتا ہے کہ وزیر خزانہ کی بجٹ پر بحث سمیٹنے کی تقریر، ان کی بجٹ تقریر سے بہت مختلف ہو گی، ویسے بھی دیکھا جائے تو قومی اسمبلی اور سینٹ میں بجٹ پیش ہونے کے بعد، دو ہفتوں کے اندر ہی چیزیں بدلنے لگی ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو سے چار فیصد تک اضافہ کرنا پڑا، اگرچہ اس کے لیے عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا جواز موجود ہے،مگر عوام کو صرف اس چیز سے غرض ہوتی ہے، جو ان کا گھریلو بجٹ خراب کر دے موجودہ بجٹ منظور ہونے کے باوجود حتمی نہیں ہوگا کیونکہ ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوئے۔حکومت نے وقتی طور پر تو آئی ایم ایف کی سفارشات یا مطالبات کو عوام دشمن کہہ کر ماننے سے معذرت کر لی ہے، اور اس انکار کا کریڈٹ لے کر بجٹ پیش کر دیا، لیکن وزیرخزانہ بار بار یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ہمیں ہر صورت میں آئی ایم ایف سے امداد لینی ہوگی۔اب ستمبر میں دوبارہ مذاکرات ہوں گیاورممکن ہے کہ پھر وہ تمام مطالبات بھی تسلیم کرنے ہوں گے جن سے انکار کیا گیا تھا اور پھر ایک لحاظ سے اصل بجٹ سامنے آئے گا۔ ماضی میں ماری حکومتوں کی یہ مستقل پالیسی رہی ہے کہ حقیقت اور سچ عوام سے چھپانے کو حکمت عملی اور سیاست کا نام دیا جاتا رہا۔ بجٹ کے معاملہ میں تو ہمیشہ حقائق کے برعکس دعوے کیے جاتے ر ہے اور اسی لیے سارا سال ہفتہ وار ترتیب سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا رہتا اور اب تو حالات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کے سچ کو بھی عوام سچ ماننے کو تیار نہیں۔اس وقت ہمارے ہمسایہ ملک میں جو تبدیلی ہو رہی ہے، اس کے پیشِ نظر معاشی ترقی اور اقتصادی سرگرمیوں کو خدشات لاحق ہوسکتے ہیں اور یہ ایسی صورتحال ہے جس میں اچھی بھلی معیشت بیٹھ جاتی ہے۔