یادش بخیر اباسین آرٹس کونسل کا دفترجن دنوں عجائب گھر کے پیچھے ایک بڑے ہال اور بغیر چھت کے آڈیٹوریم میں تھا ان دنوں میں اس ہال اور اڈیٹوریم میں ادبی اور ثقافتی زندگی پر جیسے بہار آئی ہوئی تھی،یہ ساٹھ کی دہائی کے آخری آخری شب و روز تھے جب میں نے پشاور کے ادبی اور شعبہ ثقافت سے جڑے ہوئے زعما سے پہلی پہلی ملاقاتیں کیں خاطر غزنوی،احمد فراز،محسن احسان ڈاکٹر محمد اعظم اعظم سے لے کر نذیر نیازی، یعقوب رومی اور ایف آر برق سمیت سٹیج اور ریڈیو کے کئی مایہ ناز فنکار وں سے دوستی کی ابتدا کا بھی یہی زمانہ تھا۔ اباسین کے سٹیج کا ایک ڈرامہ ”بڑے صاحب“ تو ابھی تک نذیر نیازی اور یعقوب رومی کی جاندار پر فارمنس کی وجہ سے مجھے یاد ہے، اکوڑہ خٹک کے محلہ قریشیان میں میں نے ایک ڈرامیٹک کلب اپنے مرحوم کلاس فیلو محمد ایاز کے حجرے میں قائم کیا تھا اور اس وقت بھی ہم نے کمرشل ڈرامے کئے تھے، ایک ہٹ ڈرامہ ”ملاپ“ میں محلے کے کئی لڑکوں نے یادگار کردار ادا کئے تھے جن میں ایاز مرحوم کا چھوٹا بھائی ذاکر بھی تھا۔ مگر اصل تربیت اباسین کے ان زعما کے ڈراموں سے ہوئی تھی،میں ان دنوں روزنامہ انقلاب اور باری ملک کے وطن میں بیک وقت روزانہ کالم لکھ رہا تھا (اب سوچتا ہوں کہ یہ سب کیسے ممکن ہو تا تھا تو خواب سا لگتا ہے)، اباسین آرٹس کونسل کے اس ہال میں موسیقی،آرٹ کی اور ادبی نشستیں ایک تواتر سے ہوتی تھیں،فریدہ خانم سے لے کر آصف علی تک کو لائیو سننے کا لطف لیا، آصف علی کا گایا ہو ایک گیت تو ان دنوں نوجوانوں کے شب و روز کو خوب خوب مہکاتا تھا۔ ’اب کے سال پونم میں۔۔جب تو آئے گی ملنے‘ اس ہال کی ادبی نشستوں میں فیض احمد فیض کے ساتھ شام تو کل کی بات لگتی ہے۔۔ اسی طرح اسی ہال میں ایک بار صادقین کی خطاطی کی نمائش بھی لگی تھی، بہت خوبصورت تقریب تھی ہال کی دیواروں پر ان کے شہ پارے لگے ہوئے تھے میرے ساتھ کی نشست پر میرے بزرگ دوست اور اس وقت روزنامہ جہاد کے سب ایڈیٹر احسان طالب مرحوم بیٹھے تھے، اچانک انہوں نے میرے کانوں میں سر گوشی کی،”ناصر یہ شخص کہیں سے بھی خوش خط نہیں لگتا“ احسان طالب کی بات نے مجھے چونکا دیا تھا یہ تبصرہ وہ شخص کر رہا تھا جس نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کتابت سے کیا تھا۔ صادقین کے ا عزاز میں ایک اور یاد گار نشست خاطر غزنوی کے تاریخ ساز ڈرائنگ روم میں ترتیب دی گئی۔۔ صادقین اس نشست میں ایک نوجوان کے ہمراہ آئے تھے،خوبصورت مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے وہ نوجوان میرے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا، بہت نرم اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے اس نوجوان نے بتایا کہ وہ صادقین کا فین ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ ان سے کچھ سیکھے، معلوم ہوا کہ میڈیکل کا طالب علم ہے، میں نے کہا کہ طب کی مصروف دنیا میں آرٹ کیلئے وقت کہاں نکال پائیں گے، مگر اس کی گہری ہوتی ہوئی دھیمی مسکراہٹ نے مجھے اس مصمم ارادے کی ساری کہانی سنا دی تھی، تب اس نوجوان سے دوستی ہو گئی، اس کے ذوق کے پیش نظر میں نے ان کو ادبی نشستوں میں شرکت کی دعوت دی یوں وہ حلقہئ فکر و نظر کی نشستوں میں آنے لگا مگر وہ بہت ریگولر نہ تھا، ان دنوں ہمارے اجلاس پشاور صدر کے پیرا ڈائز ہوٹل میں ہوا کرتے تھے، پھر ایک دن مجھے اس نے ایک نظم سنائی مجھے بہت اچھی لگی۔، میں نے کہا تمہارے پاس نقل ہو تو مجھے دے دو،اس نے کہا آپ رکھ لیں، مجھے یاد ہے۔ اب جو کاغذ ہاتھ آیا تو نہ صرف ان اس کی لکھائی شاندار تھی بلکہ اس کے ساتھ ایک دو خوبصورت سکیچ بھی تھے جو یقیناََ صادقین ہی کے انداز میں تھے، میں نے کہا آپ کی انگلش ہینڈ رائنگ بھی اتنی ہی خوبصورت ہے تو آپ پہلے ڈاکٹر ہوں جس کا لکھا ہوا سب پڑھ سکیں گے، اور ایسا ہی ہوا وہ ادبی نشستوں سے دور ہو گیا مگر طب کی دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنے لگا۔ اب ہماری ملاقاتیں بھی سمٹ گئیں جن دنوں دوست مہربان ڈاکٹر حفیظ اللہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے مدارالمہام تھے اور ہسپتال کو بہت خوبصورت اور خوشنما بنانے اور بہت سوں کے چھوڑے ہوئے اور نظر انداز کئے ہوئے کاموں کو پورا کرنے اور سنوارنے کے لئے کو شاں تھے یہاں وہاں برامدوں،دالانوں اور راہداریوں میں قران و حدیث پر مبنی منقش فریم اور پینتینگز لگ چکی تھیں میں ڈاکٹر حفیظ اللہ کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنے ان کے دفتر پہنچا تو وہیں بہت دنوں بعد اس نوجوان سے بھی ملاقات ہوئی، ڈاکٹر حفیظ اللہ تعارف کرایا ابنہیں علم نہ تھا کہ ہم تو جنم جنمانتر سے ایک دوسرے کے قریب ہیں، ادب اور آرٹ دونوں کا اوڑھنا بچھونا رہا ہے مگر یہ باغی ہو گئے اور اب اپنی تخلیقات تک دوستوں کی رسائی کو ناممکن بنایا ہوا ہے، ڈاکٹر حفیظ اللہ نے کہا کہ یہ جو آپ کو ہسپتال میں تزئین و آرائش نظر آرہی ہے یہ مجھ اکیلے کے لئے محض ان کی مدد سے ممکن ہوا ہے،شاعر مصور، ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ یہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں،۔ شعر و تصویر کے ساتھ ساتھ طب میں ان کی مہارت کا میں بھی قائل تھا ایک بار جب میرے برادر بزرگ سید پیر محمد شاہ کے دوست مرحوم خائستہ خان کے سسرکو اسی ایل آر ایچ میں چترال سے بغرض علاج لایا گیا تو یہی نوجوان مجھے ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں ملا ان کے ایکسرے اور دیگر ٹیسٹ ہو چکے تھے ڈاکٹر ڈینس آئزک بھی اسی ڈیپارٹمنٹ میں تھے۔اور یہ ہمارا ٹھکانہ تھا، یہ نوجوان،میں،پروفیسر ودود منظر اور ڈاکٹر ظاہر شاہ اورکچھ اور دوست اکثر یہیں گپ شپ کرتے،،ہمارے مریض کو ڈاکٹر صاحبان نے مشورہ دیا کہ انہیں لاہور لے جایا جائے۔مگر یہی نوجوان مجھے ایک طرف لے گیا بولٹن بلاک کے سائے تلے ہم کھڑے تھے، اس نے کہا کہ معجزوں سے انکار نہیں مگر مجھے نہیں لگتا کہ لاہور میں اس کا کوئی علاج ہے، یہ جس سٹیج پر ہیں وہاں دعا تو کام کر سکتی ہے دوا نہیں، بہتر ہے کہ لاہور کی بجائے انہیں واپس ”ایون“(چترال) لے جائیں، اور اگر بہت سا پیسہ ہی خرچ کرنا ہے تواور بات۔، ایسا ہی ہوا اور مریض پھر چند دن ہی زندہ رہا۔ جب بھی جہاں بھی میری ملاقات ہوتی میں کہتا یارا لوٹ آؤ مہینہ دو مہینہ میں محض ایک آدھ گھنٹہ کے لئے ہی دوستوں سے مل لو۔ ہر بار وہی دھیمی اور زندگی بخش قسم کی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر کہتا۔ یار۔اب کے ضرور آؤں گا۔ میں اسی وعدے کی ڈور سے بندھا رہا کہ اب کے ضرور آؤں گا۔ مگر وہ ایکسرے کی کالی تصویروں سے ا لٹرا ساؤنڈ کی روشن تصویروں کی اور نکل پڑا اور اس فن میں بھی اولیت کا سہرا اسی کے سر بندھا۔ کل کا یہ نوجوان آج الٹرا ساؤنڈ کی دنیا کا ایک معتبر و مستند ڈاکٹر مراد علی تھا۔ آخری ملاقات میں بھی یہی کہا۔ یار اب کے ضرور آؤں گا۔اس آخری ملاقات کو بھی کوئی سال بھر ہونے کو ہے مگر اب دو دن پہلے ان کی ایک چھوٹی سی تصویردیکھ کر میری ہچکی بندھ گئی یہ تصویر ان کی بنائی ہو ئی نہیں تھی وہی جادوئی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے ہوئے ان کی اپنی تصویر تھی۔ جو کہہ رہی تھی سوری یار اب نہیں آ پاؤں گا۔اور اس کی یہ تصویر اخبار کے ا ْ س کالم میں لگی تھی جہاں بچھڑنے والوں کا ذکر ہو تا ہے۔افضل خان یاد آگئے۔
شکستِ زندگی ویسے بھی موت ہی ہے نا
تو سچ بتا یہ ملاقات آخری ہے نا