عالمی برادری کے ساتھ رہنے کے تقاضے نبھانا ہر ملک کی ذمہ داری ہے، مختلف بین الاقوامی ادارے اس مقصد کے لئے رہنمائی اور سہولت کاری کرتے ہیں، سب سے بڑا ادارہ اقوام متحدہ ہے، پھر اس کے ذیلی ادارے، ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی، عالمی عدالت انصاف اور دنیا میں دولت کی غیرقانونی ترسیل اور دہشتگردوں کو وسائل کی فراہمی پر نظر رکھنے والا ادارہ ایف اے ٹی ایف ہے، ان سب کے قیام اور کردار کا مقصد، تمام رکن ممالک کے ساتھ مصنفانہ اور مساویانہ سلوک اور برتا ہونا چاہئے، لیکن ہمارا یہ تجربہ ہے کہ کم از کم پاکستان کے حوالے سے ان سب عالمی اداروں کا رویہ غیر منصفانہ ہے، اقوام متحدہ کی آزمائش کے لئے صرف جموں کشمیر کا مسئلہ ہی کافی ہے، اقوام متحدہ 70 سال سے اپنی قراردادوں پر عمل کروانے میں نہ صرف ناکام ہے، بلکہ قراردادوں کو تسلیم کرنے اور ان پر عمل کرنے سے مسلسل انکار کرنے والا بھارت اقوام متحدہ کا ڈارلنگ بنا ہوا ہے۔ انسانی حقوق اور مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے بھی پاکستان اور بھارت کو الگ الگ عینک سے دیکھا جاتا ہے، حد تو یہ ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت اور چند ریاستی حکومتیں بھی انتہا پسند جماعتوں کی ہیں، ہندتوا کا عفریت، نہ صرف غیر ہندو اقلیتوں کو جینے کا حق دینے کو تیار نہیں، بلکہ ہندں کی نچلی ذاتوں کے افراد بھی انسانی حقوق سے محروم ہیں، اس کے باوجود اقوام متحدہ سے لیکر عالمی طاقتوں کو کچھ نظر نہیں آتا پاکستان واحد ملک ہے، دنیا کے مختلف مقامات پر،اقوام متحدہ کے امن مشنز پر سب سے زیادہ فوجی جوان اور افسر ڈیوٹی دے رہے ہیں، لیکن پھر بھی ہمیں امن دشمن سمجھا جاتا ہے، تازہ ترین عالمی سیاسی ڈرامہ ایف اے ٹی ایف میں ہمارے ساتھ کھیلا جا رہا ہے‘ گزشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی قومی اسمبلی میں جائز سوال اٹھایا ہے کہ ایف اے ٹی ایف معاملات کو ٹیکنیکل طریقے سے دیکھتا ہے یا سیاسی طور پر، کیونکہ ہمارے حوالے سے فیصلہ سیاسی مفادات کے تحت کیا گیا، اب ایف اے ٹی ایف میں ہمارا کیس آئندہ سال جون تک لٹک گیا ہے، اگرچہ ہمیں کہا گیا کہ اکتوبر تک شرائط پوری ہوگئیں تو غور کیلئے اجلاس بلایا جا سکتا ہے، لیکن گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے تنظیم کا مطمئن ہونا ضروری ہے اور اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ جب تک بھارت اورفرانس ایف اے ٹی ایف میں بیٹھے ہیں، ان کو مطمئن کرنا مشکل ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری سے تعاون کیا، صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے، پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے، یہ حقیقت دنیا تسلیم بھی کرتی ہے، مگر دنیا کا رویہ اس کے برعکس ہے اور عملی طور پر ہمیں دہشت گردوں کا سرپرست سمجھا جاتا ہے، دنیا کو اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر پاکستان کی قربانیوں اور خدمات کا اعتراف کرنا اور ہمارے حوالے سے مصنفانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔