ہمیں اُن لوگوں پر ہمیشہ ہی اعتراض رہاہے کہ جو سکو لوں میں چھٹیوں کے مخالف ہوتے ہیں۔سکولوں میں ہمارے نونہال تعلیم پاتے ہیں اور ہمارے سکولوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اگر آپ نے ان سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے کہ جن کو ہم گورنمنٹ کے سکول کہتے ہیں تو پھر آپ کو ایسا کہنے کا سوچنا بھی نہیں چاہئے۔ ہم جب تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ان سکولوں میں کمرے اگر تھے تو فرنیچر نہیں تھا اور بجلی وغیرہ کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ صرف ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر میں ایک چھت کے ساتھ لٹکا ہوا پنکھا ہوتا تھا کہ جس کی رسی کو چپڑاسی کمرے کے باہر بیٹھا کھنچتا رہتا تھا اور وہ پنکھا ہیڈ ماسٹر صاحب کے سر پر جُھلتا رہتا تھا۔ باقی سارے سکول میں پنکھے جیسے عیاشی نہیں ہوا کرتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ سکولوں نے ترقی کی اور اب تقریباً ہر ہائی سکول کے ہر کمرے میں ایک عدد پنکھا ضرور ہوتا ہے مگر اس کا اعتبار ذرا کم ہی ہوتا ہے۔ اور ہر سکول میں بجلی بھی تو مہیا نہیں ہوتی۔ اور ایک پنکھا چالیس پچاس کی کلاس میں جو ہوا دیتا ہو گا اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اور جہاں تک بجلی کا تعلق ہے تو ہمارے سکولوں میں جس قدرمہیا کی جاتی ہے اُس کا بھی سب کو معلوم ہی ہے تو ایسے میں یہ کہنا کہ جولائی اور اگست میں بھی گرمی والے سکولوں میں پڑھائی جاری رکھی جائے تو ہم اس پر تعجب ہی کر سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سکولوں کے بارے میں فیصلے کرنے والے خود تو ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہوتے ہیں اس لئے وہ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ ہمارے گورنمنٹ سکولوں کے طلباء کس طرح سے پڑھائی کررہے ہیں۔ اگر ذرا سی گرمی ہو جاتی ہے تو طلبا کے ایک ہاتھ میں رومال اور دوسرے میں پن ہوتا ہے اور وہ نوٹس بھی لے رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ پیشانی سے پسینہ بھی پونچھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے زیادہ سے زیادہ پانچ چھ فی صد ہائی اور مڈل سکول ہوں گے کہ جہاں بجلی کی سہولت موجود ہے باقی میں بجلی کی سہولت بھی نہیں ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ جون جولائی کے مہینوں میں ان سکولوں میں پڑھائی جاری رکھی جا ئے سمجھ سے باہر ہے۔ اگر فیصلے کرنے والے زمینی حقائق کو مد نظر رکھیں تو ایسا سوچنا بھی مشکل ہے۔ ہاں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرنا تو آسان ہے مگریہ بچوں کامعاملہ ہے جو اتنی زیادہ گرمی برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمیں یاد ہے کہ اپریل مئی میں بھی ہمارے ساتھی صبح اسمبلی میں بھی بے ہوش ہو جایا کرتے تھے۔ چہ جائے کہ بغیر پنکھوں کے جو ن جولائی میں کوئی ان کمروں میں پڑھائی کر پائے۔ اور بہت سے سکول آج بھی ہمارے صوبے میں ایسے ہیں کہ جہاں کمرے بھی پورے نہیں اور بچے باہردرختوں کے سائے میں اپنے گھر سے لائی ہوئی بوریوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ کہہ دینا تو آسان ہے کہ سکولوں کو چھٹیا ں نہ دو مگر جنہوں نے ہماری طرح گورنمنٹ کے سکولوں میں ٹاٹوں پر بیٹھ کر میٹرک کی ہے وہ ایسی باتیں سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہاں اگر آپ سارے سکولوں میں وہ ساری سہولتیں مہیا کر دیتے ہیں کہ جو اس گرمی میں خصوصاً طالب علموں کو آرام پہنچا سکیں تو پھر آپ کہہ دیں کہ جون جولائی میں بھی گرمی والے سکولوں میں پڑھائی جاری رکھی جائے۔ مگر یہاں تو سکولوں میں بیٹھنے کو کمرے اور کمروں میں ڈیسک بینچ بھی نا پید ہیں ایسے میں یہ کہنا سکولوں میں چھٹیاں نہ کی جائیں اس کا کیا کہہ سکتے ہیں۔ حال ہی میں کئی سکولوں میں بچوں کے بے ہوش ہونے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لاک ڈاؤن نے تعلیمی سلسلے کو بے حد متاثر کیا ہے تاہم جس طرح کورونا جان لیوا تھا اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ سکولوں کو بند رکھا جائے اس طرح اگر گرمی بھی جان لیوا ہوتو سکولوں میں پڑھائی جاری رکھنا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔