پاکستانی سیاست کا مزاج ایسا ہے کہ زیادہ عرصہ سنجیدہ نہیں رہ سکتی، اگرچہ پی ڈی ایم میں اختلافات اور پیپلز پارٹی کے انخلا کے بعد، کچھ عرصہ خاموشی رہی اور ایسے محسوس ہوتا تھا کہ اب سیاست پارلیمنٹ میں واپس آگئی ہے، لیکن اب پھر سے جلسوں کا سیزن شروع ہو رہا ہے، 4 جولائی کو سوات میں پی ڈی ایم کا جلسہ اس بات کی علامت ہے کہ پارلیمنٹ سے باہر رہ جانے والے سیاستدان آرام سے اگلے انتخابات کا انتظار کرنے کو تیار نہیں، اگر سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو پی ڈی ایم میں اب نون لیگ اور جے یو آئی ہی ایسی جماعتیں رہ گئی ہیں، جن کی پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی ہے اور عوام میں بھی وجود رکھتی ہیں،پیپلزپارٹی نے تو بہرحال پی ٹی ایم سے الگ ہونا ہی تھا‘ اے این پی نے بھی لگے ہاتھ اپنا دامن بچا لیا۔ اب پی ڈی ایم میں مسلم لیگ نون بھی آدھی گرم جوشی کے ساتھ شامل ہے، پارٹی صدر شہباز شریف پارلیمنٹ تک متحرک رہ کر حکومت کا عرصہ گزارنا چاہتے ہیں، جبکہ نواز شریف اور مریم نواز، مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیتے ہوئے عوامی سطح پر بھی سرگرم رہنا چاہتے ہیں، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ اس بات پر متفق ہے کہ وفاق اور پنجاب حکومت کو گرنے نہیں دینا، بلکہ کوشش ہے کہ پنجاب میں عثمان بزدار ہی رہیں، اس کے باوجود جلسے جلوس کی سیاست کا کیا مقصد ہے، یہ واضح نہیں۔ جہاں تک سوات کے جلسے کا تعلق ہے تو یہ مسلم لیگ نون کی صوبائی قیادت کیلئے ایک امتحان ہے، سوات میں سیاسی طور پر تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون ہی منظم اور متحرک دکھائی دیتی ہیں اگرچہ صوبے میں جے یو آئی بھی بڑی سیاسی قوت ہے، مگر سوات کے جلسے میں وہ بھی لیگی قیادت پر ہی انحصار کرتی ہے۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ سوات کا جلسہ کامیاب ہو جائے گا، ویسے بھی ان دنوں ہر کوئی سوات جانے کا خواہش مند ہے اور اگر مفت ٹرانسپورٹ بھی مل جائے تو کون یہ موقع ضائع کرے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جلسے کے بعد پی ٹی ایم کا کیا لائحہ عمل ہو گا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ جلسوں سے حکومت کمزور نہیں ہوگی. دوسری طرف دیکھیں تو پی ڈی ایم کے ساتھ ساتھ ایک متوازی پوزیشن بھی چل رہی ہے.، اس کی قیادت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایک کل جماعتی کانفرنس بلا رکھی ہے، جس میں پی ڈی ایم سے باہر کی اپوزیشن کو بھی بلایا گیا ہے۔ بلاول زرداری سمیت سب نے اس میں شرکت کی حامی بھر لی ہے۔یہ کانفرنس انتخابی اصلاحات، بالخصوص سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار سے متعلق مشاورت کیلئے بلائی گئی ہے۔ چند دن پہلے شہباز شریف نے اپنی پارٹی کی طرف سے پالیسی بیان دیا تھا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہئے، مگر ووٹ پاکستان آ کر استعمال کریں، بیرون ملک میں پولنگ پر اعتماد نہیں۔اس سے پہلے مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال یہ کہہ چکے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ سے اس بات کا خطرہ ہے کہ دشمن ملک سارا سسٹم ہیک کر لیں‘ بہرحال ہم نے پہلے بھی ان کالموں میں یہ لکھا تھا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ایسا کام ہے، جس کی کوئی جماعت مخالفت نہیں کر سکتی، البتہ اپنے تحفظات کے تحت طریقہ کار سے اختلافات کرسکتی ہیں۔شہباز شریف کی طلب کردہ کانفرنس، اہم قومی امور پر مشاورت کا مثبت طریقہ ہے۔توقع ہے کہ اس کانفرنس کی سفارشات پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان انتخابی اصلاحات پر مذاکرات بھی شروع ہو سکتے ہیں۔وزیراعظم نے بھی پارٹی رہنماؤ ں اور کابینہ کے سینئر ارکان کو کہا ہے کہ وہ اپوزیشن کو ایک بار پھر اصلاحات کیلئے مشاورت کی دعوت دیں۔ اب اے پی سی جیسا سنجیدہ اجلاس اور مشترکہ اپوزیشن کے لائحہ عمل کے ساتھ سوات کے جلسے کی اہمیت کیا رہ جائے گی۔یہ پی ڈی ایم کو سوچنا چاہئے اس وقت ملک کو مخالفت برائے مخالفت کے بجائے سنجیدہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ایک طرف داخلی انتشار اور دوسری طرف ہمسایہ ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت ملک کیلئے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ حکومت کی اپنی ذمہ داریاں ہیں، لیکن اپوزیشن کا بھی کام ہے کہ وہ حکومت کے قریب آ کر اس کی رہنمائی کرے بعض اوقات سیاست پر ریاست کو ترجیح دینا ضروری ہو جاتا ہے اور یہ وقت شاید ایسا ہی ہے اور اپوزیشن کو حکومت کی درست سمت رہنمائی کیلئے اپنا کردار تبدیل کرنا ضروری ہے، یہ انتخابی اصلاحات ہو یا افغانستان میں بدلتے حالات پر قومی پالیسی کی تیاری۔