پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا

 اور اب آہستہ آہستہ راستوں اور بازاروں میں قربانی کے جانور اپنی بہار دکھلانے لگے ہیں، ابھی تو شروعات ہیں پھر جب ان کی تعداد زیادہ ہو جائے گی تو سرکار کو یاد آنے لگے گا کہ یہ تو فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کے لئے اور سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک کے لئے کہیں رکاوٹ کا سبب نہ بنیں تو پھر دو چار دن تک انہیں ادھر ادھر دھمکا بھگا کر چھوڑ دیں گے لیکن شہر کی ٹریفک اور فٹ پاتھوں کے مقدر میں ہمواری اور سبک رفتاری کا تصور ہے ہی نہیں، آئے دن سننے میں آتا ہے کہ تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے اور یہ جھوٹ بھی نہیں ہوتا مگر سالہا سال کا بگاڑ ایک آدھ آپریشن سے کہاں سدھرنے والا ہے، کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی بھی مصروف شاہراہ یا مارکیٹ میں اچانک ایک ہنگامہ دوڑ بھاگ اور پکڑ دھکڑ کا شروع ہو جاتا ہے اور گھنٹہ بھر بعد بازار بلکہ تجاوزات کی رونق پھر بحال ہو جاتی ہے، یہ بے معنی مشق گزشتہ نصف صدی سے تو میں دیکھ رہا ہوں، گویا یہ اس مسئلہ کا حل نہیں ہے،ایک زمانے میں سرکاری اور نجی بسوں اور ویگنوں میں اوور لوڈنگ کے خلاف اسی طرح کے آپریشنز روز کے معمول تھے، ٹریفک سارجنٹ انہیں روک کریا جرمانہ کرتاجو چند روپوں سے زیادہ کیا ہو نا تھا اور یا ڈرائیور حضرات انہیں خوش کر کے آگے بڑھ جاتے اور پہلے سے دگنی سواریاں بٹھا دیتے تاکہ وہ رقم پوری ہو سکی جو بطور جرمانہ ادا کی گئی یا پھر کرنا تھی۔ مجھے یاد ہے میں نے اس وقت غالباً شریف فاروق کے روزنامہ جہاد میں ایک کالم میں تجویز دی تھی کہ جرمانہ ”وغیرہ“ اس کا حل نہیں ہے، اس لئے ڈرائیور یا کنڈیکٹر کو جرمانہ کرنے کی بجائے بس یا ویگن میں جو سواریاں کھڑی ہیں انہیں فی کس جرمانہ کیا جائے، تو شاید آئندہ وہ بھری بس میں بیٹھنے کی کوشش ہی نہ کریں، خیر طوطی کی نقار خانے میں سنتا کون ہے اور پھر یہ بھی تو دیکھنا ہو تا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بھی ٹریفک پولیس کا اختیارات سے تجاوز ات کی زد میں آ جائے اور لینے کے دینے پڑ جائیں، بلکہ یہ بات بھی ہوئی تھی کہ سکول کالج کے نوجوانوں کو ہلکی پھلکی ٹریننگ دے کر رضا کارانہ فورس بنائی جائے،اس کا حوالہ میں نے ماحولیات کے سدھار کے لئے لکھے گئے سٹیج ڈرامہ ”پہلی بارش“ اور ”کس کو کہہ رہے ہو“ میں نوجوان کرداروں کے ذریعے اجاگر کیا تھا یہ دونوں ڈرامے ماحولیات کے بچاؤ اور محفوظ رکھنے والے عالمی ادارے ”آئی یو سی این“ کی فرمائش پر لکھے اور نشتر ہال میں سٹیج کئے گئے تھے۔ یہ سب قصے نوے کی دہائی کے اوائل اور وسط کے زمانے کے ہیں، اور اسی زمانے میں پشاور کو بنانے اور سنوارنے کے لئے مرحوم شریف فاروق سمیت چند دلسوزپشاوریوں کی یکے بعد دیگرے دو تین تنظیمیں بھی بنی تھیں مگر وہ جلد ہی دم توڑ گئیں،اور کم وبیش قریب کے زمانے میں دوست عزیز ادب و ثقافت دوست اور مخلص شخصیت خالد ایوب کی بنائی ہوئی فلاحی سماجی تنظیم کاروان دامے درمے سخنے دوڑ دھوپ کے باجود ابھی تک مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکی، البتہ جو بات تواتر سے سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے وہ سیاسی اور سماجی زعما ء کی طرف سے تھوڑے تھوڑے وقفے سے اعلانات اور بیانات کی شکل میں سنائی دیتی ہے، وہ بات دھول سے اٹے شہر کوپھول نگر بنانے کے ہوتی ہے اور ہم خوش فہم و خوش گمان اسی کو سچ مان لیتے ہیں۔فراز نے کہا ہے۔
 آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی 
 ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے
لیکن یار لوگ اسے بھی غنیمت جانتے ہیں کہ کسی کو یہ احساس تو ہے کہ شہر کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ نا قابل دید ہوتی جا رہی ہے، اس میں بھی شک نہیں کہ پچھلے دو چار برس میں کچھ سنجیدہ کو ششیں بھی ہوئی، جن میں بازار کلاں اور بڑی شاہراہ (جی ٹی روڈ) کو خوبصورت بنانا بھی شامل ہے،پھول پودے اور کچھ عمارات کو رنگین بھی بنا دیا گیا تھا مگراس ساری عمدہ کوشش کو بنانے کے بعد حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا،چنانچہ پھول پودے پروان نہ چڑھے اور رنگین دیواروں پر ٹریفک سے اٹھنے والی دھول نے ایسے ایسے نقش ونگار بنادئیے کہ مانی و بہزاد بھی دنگ رہ جائیں اور شکیب جلالی کا شعر یاد آ جائے۔
 عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
 دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
اور فلائی اوور کے نیچے کی خوبصورت جگہ کو جو مختلف ثقافتی اور روائتی اشیا ء سے مزید خوبصورت بنانے کی سعی کی گئی اس کا وویو اس کے قرب جوار میں موجود خوانچہ فروشوں اور تہہ بازاریوں نے بلاک کر رکھا ہے، ”تیرے چہرے سے نظر نہیں ہٹتی نظارے ہم کیا دیکھیں“ اس پر مستزاد نشہ بازوں کی ٹولیاں بھی ہیں جو ویسے تو شہر بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ کبھی یہ ٹولیاں ویرانوں اور قبرستانوں کو گھیرے رکھتی تھیں مگر چونکہ ”ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے“ سب کے سب اسے معمول کی سرگرمی سمجھتے ہیں اس لئے ذرا دیر بھی رک کر ان کی طرف دیکھنا گوارا نہیں کرتے اس لئے شہر میں پھیل گئیں ”بی آر ٹی“ سے پہلے کی ٹریفک کی تکلیف دہ اور اذیت ناک صورتحال کو محض اس لئے گوارا کر لیا گیا تھا کہ اس ”جزوی آزار“ کے بعد ”کلّی شاد“ نصیب ہو گا، مگر بہت سی منصوبہ بندیوں کے بعد بھی صورت حال میں بہت بہتری نہیں آئی اور اس کی وجہ بھی وہی ہے جو چار پانچ دہائیاں پہلے تھی، انہیں سڑکوں پر ”اپنی لین“ میں چلنے کی کسی کو عادت نہیں ہے اس لئے رواں دواں ٹریفک میں ذرا ذرا دیر کے بعد کھنڈر پڑ جاتی ہے ”اور اب تو خیر سے آہستہ آہستہ راستوں اور بازاروں میں قربانی کے جانور اپنی بہار دکھلانے لگے ہیں، ابھی تو شروعات ہیں“ اس لئے بروقت ان کی خبر لی جائے کیونکہ ”جب ان کی تعداد زیادہ ہو جائے گی تو پھر اس کا علاج مشکل ہو جائے گا، میر یاد آگئے۔