قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر کئی حوالوں سے منفرد تھی۔تقریر کے مندرجات پر بات کرنے سے پہلے، اس ماحول کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اپوزیشن ارکان نے پوری توجہ سے وزیراعظم کا خطاب کیسے سنا‘یہ بھی غیر متوقع اور غیرمعمولی واقعہ تھا اس سے پہلے شور شرابہ اور نعرے بازی کی روایت رہی ہے, اس صورت حال کو ممکن بنانے اور بجٹ اجلاس کے شروع میں ہونے والی بدمزگی کے اثرات کو زائل کرنے اور ایک مثالی پارلیمانی ماحول بنانے میں، سپیکر اسد قیصر کا اہم اور مثبت کردار نمایاں ہوا ہے۔سپیکر نے 13 جون کو اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران ہلڑ بازی کرنے والے ارکان قومی اسمبلی کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کی اور قواعد وضوابط کمیٹی میں، ایک دوسرے کے سیاسی قائدین کو سکون کے ساتھ سننے پر قائل کیا، یہ عمل ہی سپیکر اسد قیصر کو ایک سیاسی مدبر ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ ان کی طرف سے وزیر اعظم کو یہ باور کرایا گیا کہ بجٹ اجلاس کے اختتامی سیشن میں قومی مسائل اور اپوزیشن کیلئے خیرسگالی کی بات ہونی چاہئے، سپیکر کے مشورے کا خاطر خواہ اثر ہوا، اور دورانِ خطاب، کئی مواقع پر اپوزیشن کے ارکان نے بھی وزیراعظم کو داد دی۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں قومی اسمبلی کے سپیکر کا کردار اکثر مشکل صورتحال سے دوچار رہا، سپیکر ہمیشہ اکثریتی پارٹی سے تعلق رکھنے والا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے حکومت کا حصہ بھی، لیکن اس نے غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہو کر ایوان کو چلانا ہوتا ہے، ہر معاملے میں حکومت اور اپوزیشن کو مساوی مواقع دینا ہوتے ہیں، آئین سازی یا کسی قرارداد کی منظوری کیلئے اکثریت کا جمہوری اصول اپنانا ہوتا ہے، اس توازن کو برقرار رکھتے ہوئے کئی بار حکومت کو بھی ناراض کرنا پڑتا ہے اور اپوزیشن تو ہمہ وقت ناراض ہی رہتی ہے۔ موجودہ اسپیکر اسد قیصر کو اس سے پہلے خیبرپختونخوا اسمبلی میں سپیکر شپ کا تجربہ تھا، اسی لیے 2018 میں قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کر آئے تو ان کی پارٹی تحریک انصاف کو سپیکر کیلئے ان کے نامزدگی میں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی نے اعتراض کیا، لیکن سپیکر کی حیثیت سے ان کو ایسی اپوزیشن سے واسطہ پڑا، جو روز اول سے ہی عدم تعاون کی پالیسی اپنا کر آئی تھی، اگرچہ ماضی میں بھی اپوزیشن کا کردار حکومت کیلئے مشکلات کا باعث ہی رہا ہے، لیکن پارلیمنٹ میں تعلقات کار مثبت رہے ہیں، حسب ضرورت قانون سازی میں بھی اپوزیشن تعاون کرتی رہی، لیکن موجودہ اسمبلی میں یہ رویہ بالکل ماضی کے برعکس رہا، سیشن کے دوران ارکان کا عدم برداشت کا رویہ اور ایک دوسرے کیلئے نازیبا الفاظ کا استعمال پارلیمانی ماحول کو مکدر ہی رکھتا رہا، لیکن اس کے باوجود اسپیکر سد قیصر نے نہ کسی طرف سے دباؤ قبول کیا اور نہ ہی کسی کو رعایت دی، انھوں نے پارلیمنٹ کی برتری اور فوقیت کو برقرار رکھنے کیلئے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کو فعال کیا اور کئی اہم قومی سلامتی کے ایشوز پر کمیٹی کے اجلاس کے ذریعے اپوزیشن، حکومت کو ساتھ بٹھا کر قومی موقف اپنانے کی راہ ہموار کی۔ یکم جولائی کو بھی پارلیمانی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس سپیکر کی صدارت میں ہوا، جس میں افغانستان کے اندر تبدیل ہونے والے حالات، امریکہ سمیت غیر ملکی افواج کے انخلا اور طالبان کی کابل کی طرف پیش قدمی کے مضمرات سمیت خطے کی جیوسٹریٹجک صورتحال کے تناظر میں، پاکستان کی مشکلات اور امکانات پر غور کیا گیا، چونکہ اس کمیٹی کی کاروائی خفیہ ہوتی ہے، لیکن توقع ہے کہ اس اجلاس کے بعد پاکستان کے مفاد میں زیادہ بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملے گی۔ جہاں تک وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں خطاب کا تعلق ہے تو انہوں نے ایک مصلحت پسند حکمران کی بجائے، ایک قائد کی طرح دنیا کے سامنے قومی بیانیہ پیش کیاجسکو جتنا سراہا جائے کم ہے۔