جون جولائی نے اپنے تیور دکھانے شروع کر دیئے ہیں۔ اب کے موسم نے عجیب رنگ دکھانے شروع کر دیئے ہیں مئی کے آخر او رجون کے شروع تک تو یہ عالم تھا کہ رات کو رضائی کی ضرورت پڑ رہی تھی۔ ایبٹ آباد تو ویسے بھی اتنی گرمی برداشت نہیں کرتا مگر اب کے تو کمال ہی ہو گیا کہ ہم نے جون میں بھی رات کو رضائیاں اوڑھ رکھی تھیں اور اب بھی جب کی جولائی بھی گزرنے کی طرف جا رہا ہے توہمارے ہاں رات کو رضائی کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ اس سے قبل ہمارے ہاں ایسا نہیں تھا، مگر اس کا ایک نقصان یہ دیکھا گیا ہے کہ جب یہ سردی ہم کو چھوڑتی ہے تو سورج کا پارہ تو پہلے سے اونچائی پر ہوتاہے اور ہم سردی سے نکل کر انتہائی گرمی کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں ایسے میں جو مشکل پڑتی ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ موسم جب دھیرے دھیرے تبدیل ہوتا ہے تو انسانی جسم اس کے اثرات کو جھیلتا جاتا ہے اسلئے جب گرمی انتہا پر ہوتی ہے تو اس کیلئے بھی جسم اپنی تیا ری کر لیتاہے اور گرمی اتنا دکھ نہیں دیتی۔مگر چند سالوں سے موسم میں ایسی تبدیلی آرہی ہے کہ جون کے پہلے ایک دو ہفتوں تک تو سردی پیچھاہی نہیں چھوڑ رہی ہوتی مگر ادھر سورج تو اپنی تپش بڑھا ہی رہاہوتا ہے اسی لئے جب اچانک بڑے درجہ حرارت کا سامناکرنا پڑتا ہے تو چیخیں نکل جاتی ہیں۔ یہ چند سالوں سے موسموں نے ہمارے ساتھ کھلواڑشروع کر رکھا ہے۔جب بندہ مارچ سے اپریل میں داخل ہو رہا ہوتا تھا تو سورج کا درجہ حرارت آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہوتا تھا تو انسانی جسم اس کو برداشت کرتا ہو اجاتا تھا اس لئے جون جولائی کی گرمی بھی اتنا تنگ نہیں کرتی تھی اس لئے کہ انسانی جسم اس کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہوتا تھا۔ مگر پچھلے چند سالوں سے موسم کاوتیرہ یہ بن چکا ہے کہ سردیاں جون تک پہنچ جاتی ہیں اور پھر اچانک سردی بھاگ جاتی ہے اور ہم کو آگ میں بھون جاتی ہے۔ اور اس طرح سے اچانک جو گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ بہت ہی تکلیف دہ ہوتاہے۔ اس لئے کہ ادھر جسم سردی کو ہی بھگت رہا ہوتا ہے کہ اچانک ہی تیز دھوپ کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے اور یہ پھر نا قابل برداشت ہوتا ہے۔ یو ں تو گرمی دیگر علاقوں کے لوگ بھی برداشت کر لیتے ہیں مگر وہ اسی طرح کہ گرمی اُن کو آہستہ آہستہ اپنے پنجوں لیتی ہے اور وہ اس کو برداشت کرتے کرتے جاتے ہیں اس لئے اُن کو جون جولائی کی گرمی بھی برداشت کرنے میں تکلیف نہیں ہوتی۔