ہمسایہ ملک افغانستان میں ایک بار پھر وہی لڑائی شروع ہو نے کوہے، جو 1990میں سوویت انخلا کے بعد شروع ہوئی تھی لیکن اب بڑا اور واضح فرق موجود ہے، جو دراصل ایک حوصلہ افزا بات بھی ہے۔سوویت یونین کی افواج کی واپسی کے موقع پر افغانستان میں نصف درجن ایسے جنگجو گروپ موجود تھے، جن کے پاس امریکی اسلحہ اور دولت بھی موجود تھی اور کابل کے قبضے کیلئے آپس میں برسرپیکار ہوگئے اس خانہ جنگی سے افغان شہری بھی نالاں تھے ایسے میں طالبان سامنے آئے، یہ دینی مدارس کے وہ طلبہ تھے۔طالبان نے جب پیش قدمی شروع کی تو امن کا جھنڈا اور شریعت کا نام لے کر نکلے تھے، اس لئے عوام نے ان کو قبول کر لیا کابل کے قریب پہنچنے پر سرکاری فوج پسپا ہو گئی اور پرامن انداز میں طالبان آگئے۔ جب امریکہ کے شہر نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز پر ہوائی جہازوں سے حملہ ہوا تو ان کا الزام اسامہ بن لادن پر لگایا گیا۔امریکہ نے افغانستان سے مطالبہ کیا کہ اُسامہ اور اس کے ساتھیوں کو اس کے حوالے کیا جائے کہاجاتا ہے کہ امریکہ پہلے ہی افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا، یہ تو بہانہ بن گیا یا (یہ بہانہ خود بنایا گیا۔ اسی حوالے سے امریکہ میں کئی کتابیں بھی لکھی گئیں، بعد ازاں امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان میں بیٹھ کر طالبان کے خلاف ہر ہتھیار اور حربہ استعمال کرتا رہا ہے اگرچہ کابل میں امریکہ اور دنیا کی مدد سے حکومت قائم رہی،لیکن بیس سال میں نہ تو کابل انتظامیہ خودانحصار ہوسکی اور نہ ہی پورے افغانستان کو کنٹرول کر سکی اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ امریکہ طالبان کو سیاسی قوت تسلیم کرنے اور ان سے براہ راست مذاکرات پر تیار ہوگیا. اس کے نتیجے میں معاہدہ ہوا اور امریکہ و نیٹو نے اپنی افواج نکالنے کا راستہ ڈھونڈ لیا اب امریکہ اور اتحادی افغانستان سے نکل گئے ہیں لیکن طالبان تیزی کے ساتھ مختلف اضلاع میں قبضے کرتے ہوئے کابل کے قریب آگئے ہیں کسی جگہ بھی سرکاری فوج نے قابل ذکر مزاحمت نہیں کی البتہ فضائیہ کی مدد سے بمباری وغیرہ کر کے طالبان کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔یہ بھی خبریں ہیں کہ امریکیوں کے چھوڑے ہوئے جنگی سامان پر بھی طالبان نے قبضہ کرلیا ہے۔اس صورتحال میں بعید نہیں کہ چند ہفتوں میں طالبان کابل میں داخل ہو جائیں گے جہاں ممکنہ طور پر ترکی اور محدود تعداد میں امریکی فوجی موجود ہیں۔اس سامنے آنے والی صورت حال میں یہ نظر آرہا ہے کہ جس وسیع خانہ جنگی کا خطرہ منڈلا رہا تھا وہ ابھی نہیں ہوئی۔اگر طالبان کابل پر قابض ہو جاتے ہیں تو امکان ہے کہ وہ دیگر صوبوں میں اکثریت رکھنے والی جماعتوں کو بھی اکاموڈیٹ کرنے میں کشادہ ظرفی دکھائیں گے اور ایسا ہوا تو ایک نیا افغانستان سامنے آئے گا۔خدشات اور خطرات کی نشاندہی تو سب ہی کرتے ہیں، لیکن فی الحال طالبان واحد قوت کے طور پر جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں، اس میں یہ امکان بھی نظر آرہا ہے کہ یہ امن کی پیشرفت ہو ویسے بھی بھارت کا ہاتھ نکل جانے سے اب شرارت بھی کم ہوگئی ہے۔ہماری تو دعا ہے کہ اللہ افغانستان میں امن لائے اور ایسی قوت کابل میں آجائے جو امن پسند کرے اور دوسروں کو قبول کرے، وہاں امن سے ہی پاکستان کا مفاد ہے۔