بلوچستان کے ناراض لوگوں سے مذاکرات کا اعلان خوش آئند ہونے کے ساتھ امید افزا بھی ہے، وزیراعظم نے گذشتہ روز گوادر میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ وہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیں، اس اعلان پر اس طرح پیش رفت ہوئی کہ نواب اکبر بگٹی کے پوتے اور رکن قومی اسمبلی، شاہ زین بگٹی کو نمائندہ خصوصی برائے قومی ہم آہنگی مقرر کر دیا ہے، ان کو وفاقی وزیر کا درجہ دے کر با اختیار بنایا گیا ہے، تاکہ وہ بلوچستان کے ناراض قبائل سے مذاکرات کر سکیں، اب یہ شاہزین بگٹی پر ہے کہ وہ کہاں سے رابطوں کی ابتدا کرتے ہیں، یہ چند دن میں واضح ہو جائے گا، اس طرح بلوچستان کے نئے گورنر ظہور آغا ایک سیاسی شخصیت ہیں، امید ہے وہ صوبے اور وفاق کے درمیان موثر رابطوں کا کردار ادا کریں گے۔ جہاں تک بلوچستان کے مسائل اور ناراض قبائل کا تعلق ہے تو یہ اتنا سیدھا معاملہ نہیں ہے، وہاں ناراضگی کے بھی کئی پہلو اور اسباب ہیں، ایک تو احساس محرومی ہے، جو غربت اور پسماندگی کی وجہ سے ہے، اس کا حل صوبے میں ترقیاتی منصوبے مکمل ہونے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے ممکن ہے، حکومت کو امید ہے کہ سی پیک کے تحت روڈز اور صنعتی زونز کی تعمیر اور گوادر بندرگاہ کے فعال ہونے کے بعد، عام بلوچ شہری بھی خوشحال ہو جائیں گے۔ ناراض بلوچوں کا دوسرا طبقہ وہ ہے جو صوبائی خود مختاری اور صوبے کے وسائل کے تصرف پر اپنا الگ موقف رکھتا ہے ان کے ساتھ بھی مذاکرات کیے جاسکتے ہیں اور مطالبات پر بات چیت کے ذریعے قابل عمل حل نکالا جاسکتا ہے۔ سب سے مشکل معاملہ ان قبائلی سرداروں کا ہے جو مبینہ طور پرخود تو بیرون ملک مقیم ہیں اور دوسرے ممالک سے رابطوں میں رہتے ہیں۔، وزیراعظم نے بھی اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ جن بلوچ سرداروں کے بھارت سے رابطے ہیں اور دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان سے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ اس وقت بڑا مسئلہ میڈیا وار کے ذریعہ بلوچستان کی ترقی اور سی پیک کے منصوبوں کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کرنا اور پسماندگی کا شکار بلوچوں کو گمراہ کرنا ہے، یہ بھارت سے ایک منظم انداز میں چلائی جانے والی ہائبرڈ وار ہے، اس سے عام بلوچ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس وقت گوادر نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کیلئے امید اور ترقی کا نشان بن کر ابھر رہا ہے، بلوچستان کے مختلف علاقوں کو نئی شاہراہوں کے ذریعے آپس میں ملا کر گوادر سے منسلک کیا جا رہا ہے، ایک روشن اور خوشحال بلوچستان ابھر رہا ہے، لیکن بھارت کیلئے سی پیک کی کامیابی ایک لحاظ سے معاشی اور تزویراتی ناکامی ہے، وہ ہر حربہ استعمال کرکے سی پیک کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے، جو بلوچستان میں کر سکتا ہے، اب افغانستان سے غیرملکی انخلاء اور تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال میں بھارت کو بھی وہاں سے نکلنا پڑا ہے، سفارتی لبادے میں بے شمار را کے ایجنٹ تھے، جو پاکستان کے ساتھ سرحد سے ملحقہ اضلاع میں قائم بھارتی قونصل خانوں میں تعینات تھے، ان کا کام ہی پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا تھا، اب ان کو کابل سے حمایت اور سہولت مشکل ہوگئی ہے، اور افغانستان سے نکل رہے ہیں‘یہ ہمارے لئے بھی موقع ہے تخریب کاری کے اس نیٹ ورک کو دوبارہ فعال نہ ہونے دیں۔ جہاں تک شازین بگٹی کا تعلق ہے تو وہ اس لحاظ سے قابل تحسین ہیں کہ دادا اکبر بگٹی کی المناک موت کے بعد وہ جمہوری وطن پارٹی کا پرچم اٹھا کر قومی سیاست میں ہیں،، وزیراعظم نے شاہ زین بگٹی کو مذاکراتی نمائندہ مقرر کرکے اچھا فیصلہ کیا ہے، شازین بگٹی چونکہ خود قدیم بلوچ اور سیاست پاکستان سے گلے شکوے ہونے کے باوجود ریاست میں رہ کر، ریاست کو تسلیم کر کے اپنے حقوق مانگنے کی سوچ کے حامل ہیں، اس لیے وہ احساس محرومی رکھنے والوں کو امید دلا کر قومی دھارے میں واپس لا سکتے ہیں‘دعا ہے کہ وزیراعظم کی یہ کوشش کامیاب ہو اور بلوچستان سے بدامنی اور تخریب کاری کا خاتمہ ہو سکے۔