بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

 کہتے ہیں کہ وقت ایک سا نہیں رہتا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، دراصل یہ روز مرہ،محاورے اورضرب الامثال یوں ہی ہماری زندگی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ نہیں بہہ رہے ہوتے ان کے پیچھے کئی مہ و سال اور کئی واقعات اور مشاہدات کا تجربہ ہوتا ہے،مجھے یاد ہے کہجب نوے کی دہائی میں پہلی بار میں امریکہ گیا تھا، تو اپنا آپ مجھے بہت پینڈو لگ رہا تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں نئے نئے پبلک ٹیلی فون بوتھ لگے تھے اس کہانی کو چھوڑتے ہوئے کہ ان کا ہم نے کیا حشر کر دیا تھا لیکن یہ سیکھ لیا تھا کہ فون کارڈ خرید کر اور بوتھ کے فون سیٹ میں کارڈ ڈا ل کر (ا نسرٹ کر کے) نمبر ملایا جاتا ہے، جب تک بوتھ رہے یہ دلچسپ سلسلہ جاری رہا، اسی دوران مجھے قومی ائیر لائن سے امریکہ جانا تھا لگ بھگ بیس اکیس گھنٹوں کا ایک طویل سفردر پیش تھا پشاور سے تو بر وقت روانہ ہوا مگرکراچی ائیر پورٹ پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ نیویارک کی فلائٹ سات گھنٹے لیٹ ہے، میں نے فون کارڈ خرید کر وہیں ائیر پورٹ پر لگے ہوئے فون بوتھ سے اپنے میزبان جوہر میر مرحوم کو کال کر کے بتایا، یہ قومی ائیر لائن کا ”با کمال لوگ لا جواب پرواز“ والا کا زمانہ تھا۔اس لئے جب ہم نیویارک کی فضاؤں میں پہنچے تو کیپٹن نے اناؤنس کیا کہ دیر سے روانہ ہونے کے باوجود اللہ کے کرم سے ہم نیویارک ائیر پورٹ پر بر وقت پہنچ رہے ہیں، خوشی کی اس خبر نے مجھے پریشان کر دیا کہ میرا میزبان تو سات گھنٹے بعد آئے گا، میں اتنے طویل،صبر آزما اور اعصاب شکن سفر کے بعد ائیر پورٹ پر اکیلا کیا کروں گا۔ نیو یارک کے جے ایف کینڈی ائیر پورٹ کی وسعت اور ہنگامہ دیکھ کر میں تو پلک جھپکنا ہی بھول گیاتھا وہاں پر نیلے پیلے اور سبز رنگ کے فون بوتھ ”قطار اندر قطار“ دور تک پھیلے ہو ئے تھے، میں نے ایک سٹال پر سے فون کارڈ خریدا اور اس ہنگامہ میں سامان کی ٹرالی گھسیٹتا اور راستہ بناتا ہوا ایک ایک کر کے کئی فون بوتھ چیک کرتا رہا مگر بد قسمتی سے وہ کارڈ بڑا تھا اور کسی بھی فون سیٹ میں انسرٹ نہیں ہو رہا تھا میں واپس اس سٹال پر گیا اور اس رو پیلے بالوں والی خوش رو لڑکی سے کہا کہ یہ کارڈ تو کسی بھی فون سیٹ میں انسرٹ نہیں ہو رہا۔ اس نے ترس کھانے والے انداز میں مجھے ایک نظردیکھا،مسکرائی اور ملائمت سے پو چھا مگر آپ فون سیٹ میں کارڈ کیوں انسرٹ کرنا چاہتے ہیں؟، میں نے کہا، مجھے اپنے ہوسٹ کو فون کرنا ہے۔ تب وہ سمجھ گئی کہ ”بندہ پینڈو ہے“ اس نے اپنی لانبی انگلی کے لمبے ناخن سے کارڈ کو کھرچا تو چند ہندسے نمودار ہوئے،باقی کہانی تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کیونکہ اب اس زمانے سے ہم ربع صدی آگے آگئے ہیں، اسی دورے میں جب لاس اینجلس سے دوست مہربان عتیق صدیقی کے پاس بوسٹن واپس آ رہا تھا، اور اپنا اٹاچی لینے اس گھومتی پٹی کے پاس باقی مسافروں کے ساتھ کھڑے تھا تو سامان بردار پٹی کے ساتھ ہی ایک اور لال رنگ کا ٹکر بھی گھوم رہا تھا، جس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ”کہ پریشانی سے بچنے کے لئے اپنا سامان اٹھاتے وقت بہت احتیاط کیجئے گا کیونکہ ایک ہی کمپنی کے بنے ہوئے اٹاچی کیس اور بیگ ایک ہی رنگ کے اور ایک طرح کے ہوتے ہیں،“ مجھے یہ انتباہ اچھا لگا اور میں نے اس کا ذکر عتیق صدیقی سے بھی کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ جو انتباہی ٹکرچل رہا تھا اس کے پیچھے ا ئیر پورٹ انتظامیہ کا تجربہ بول رہا ہے ایسے حادثے بارہا ہوئے ہوں گے اور اس کی شکایت مسافروں نے کئی بار کی ہو گی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ جو روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل کسی بھی سماج میں زندگی کے دھارے میں رچ بس جاتے ہیں ان کے پیچھے بھی صدیوں کا مشاہدہ اور تجربہ ہو تا ہے، یار لوگ بار بار ایسی ابتلاؤں سے گزرتے ہیں پھر ان کے منہ سے ایسی ہی کوئی بات نکل جاتی ہے جو آنے والے بہت سے زمانوں کے لئے باعث عبرت بن کر مشعل راہ ہو جاتی ہے اور ہم اسے روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل کے طور پر قبول کر لیتے ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ ضرب المثل کے یہ چند قیمتی الفاظ کوئی ایک شخص نہیں بناتا۔ یہ لفظ اپنے پورے سماج کی دانش اور وزڈم ہوتا ہے۔ لیکن اب ہم جس دور میں ہیں یہاں بہت سے چیزوں نے اپنی دانائیوں سے انگلی چھڑا لی ہے، زندہ الفاظ دیکھتے ہی دیکھتے کلیشے بن گئے، زبانوں نے اپنا دامن پہلے سے زیادہ وسیع کر دیا،پرانے لفظوں کی وہ وضع داری باقی نہیں رہی، محاورے کا وہ چلن اب بدل گیا،نیا دور نئے تقاضوں کے ساتھ اپنی جگہ بنا رہا ہے بلکہ بنا لی ہے۔ سوشل میڈیا نے بہت سوں کو بہت سی راہیں سجھا دیں ہیں۔ پہلے سے طے شدہ اور رائج زندگی کرنے کے قواعد و ضوابط تیزی سے شکست و ریخت کا شکار ہیں، اچانک ہی کوئی بات سامنے آتی ہے اور ٹاپ ٹرینڈ بن جاتی ہے۔جیسے ان دنوں ایک تواتر سے سوشل میڈیا پرایسی نظمیں وائرل ہو رہی ہیں جس میں باپ کے کردار کو خراج پیش کیا جا رہا ہے،اس کی ابتدا ء ایک معصوم سی پوسٹ سے ہوئی تھی کہ ”میں بچہ تھا گھر میں کہیں بھی کھیلتے کھیلتے سو جاتا تھا مگر جب صبح جاگتا تھا تو اپنے بستر پر ہو تا تھا“ ہر چند یہ خراج باپ کے لئے تھا مگر وضاحت نہ تھی پھر یہ نظم آئی ”یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ماں سے“ اور اب ایسی کتنی ہی پوسٹیں وائرل ہیں جس میں باپ کو خراج پیش کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ کل ایسی ہی ایک پوسٹ کے حوالے سے پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسر عبد القیوم ہو تی سے بات ہو رہی تھی تو میں نے انہیں یاد دلا یا کہ جب پی ٹی وی اکلوتا چینل تھا تو اس زمانے میں پی ٹی وی پشاور سے میرا ایک سیریل ”دوریاں“ چلا تھا جس کی آخری اقساط فرخ سیئر کے بچھڑنے کی وجہ سے آپ نے ریکارڈ کی تھیں اور اس کا مو ضوع بھی بایہی تھا کہ ماں کے پیار کو اس کے آنسوؤں کی وجہ سے بہت شہرت مل گئی اولاد کے لئے جو باپ سوچتا ہے وہ بتا نہیں سکتا کیونکہ اس کے آنسو اندر کی طرف گرتے ہیں۔اب اتنے عرصے بعد سوشل میڈیا پر یہ بات وائرل ہو رہی ہے۔ اس پر عبدالقیوم ہوتی نے ایک بہت مزے کی بات کی،کہنے لگے سوشل میڈیا نے جہاں بہت سے نئے رویئے جنم دئیے وہاں بہت سوں کی وہ محرومیاں بھی ختم کر دیں۔ کل تک لکھنے والے اور فنکار ادب و ثقافت کے بڑے مراکز اور بڑے ادبی جرائد سے شکوہ کناں تھے کہ وہ چھوٹے شہروں کے رہنے والوں کو ذرا بھی اہمیت نہیں دیتے یا اس بھیڑ میں شاید ہماری بار ی ہی نہیں آتی تھی اور جو دو چار لوگ پہچان پیدا کر گئے ہیں انہیں یہ مقام طویل جد و جہد اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر ملا۔ مگر اب کام آسان ہے سوشل میڈیا آ گیا ہے اب کسی کو کسی کی پروموشن کی ضرورت نہیں، اپنا چینل بنا لو،ریڈیو بنا لو گروپ بنالو اپنے حلقہ احباب سے اپنی صلاحیتوں کا دھنڈورا پٹوا لو یہ نہ ہو تو سنیک ایپ یا ٹک ٹاک تو ”کیا حکم ہے میرے آقا“ کی طرح ہاتھ باندھے آپ کی دسترس میں ہے“ مجھے حیرانی ہو ئی کہ یہی بات تو نواب مصطفےٰ خان شیفتہ ڈیڑھ سو برس پہلے کہہ گئے ہیں۔۔ 
 ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
 بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا