کورونا کی چوتھی لہر کا خطرہ اور عوام۔۔۔۔۔

کوروناوائرس رنگ بدل بدل کر حملہ آور ہو رہا ہے، ہر نئی لہر پہلے سے زیادہ شدید اور مہلک ثابت ہو رہی ہے۔ اب چوتھی لہر میں ڈیلٹا ویرئنٹ کا وائرس پھیل رہا ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی پاکستان کو کورونا کے بعد معمولات کی واپسی والے دنیا کے ممالک میں تیسرے نمبر پر رکھا گیا تھا۔ اب تو تمام احتیاطی پابندیاں بھی ختم کر دی گئی تھیں۔ لیکن اب پھر نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور نئے وائرس ڈیلٹا کی موجودگی کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں. کہا جاتا ہے کہ یہ بھارت میں شروع ہونے والے وائرس کی شکل ہے۔ اگرچہ ہمارا بھارت کے ساتھ براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہے، محدود پیمانے پر آمد و رفت بھی سکریننگ کے ذریعے ہوتی ہے لیکن ڈیلٹا ویرئنٹ برطانیہ اور یورپ سمیت مشرق وسطیٰ میں بھی پہنچ چکا ہے، اس لیے دنیا بھر میں پھیلنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان میں کورونا کی مانیٹرنگ اور انسدادی پروگرام کے نگران ادارے، این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر کو ابھی نہ چھوڑیں، ورنہ پابندیاں لگانا ضروری ہو جائے گا۔
 دوسری طرف ویکسی نیشن بھی تیزی سے جاری ہے، چین سے ملنے والی سائنو ویک کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور روس کی ویکسین بھی آ چکی ہے۔ پاکستان میں تیار ہونے والی پاک ویک بھی قومی ادارہ صحت سے این سی او سی کو مل رہی ہے۔ اب تو ویکسین لگوانا قانونی مجبوری بھی بن گئی ہے۔ کئی طرح کی پابندیوں کا خوف دلا کر عوام کو ویکسین لگوانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہمیں ایک مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ چین کی جو ویکسین عام لگائی جاتی ہے، اس کو مشرق وسطی کی ریاستیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ فائزر کی ویکسین کے بغیر کسی کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دے رہے۔ کوئی ہفتہ پہلے تک تو افغانستان سے فلائٹ یو اے ای اور سعودی عرب کیلئے کھلی تھیں، مگر پاکستان سے براہ راست پرواز بند تھی۔ اس صورتحال سے ان ممالک میں مزدوری اور روزگار کرنے والے ہزاروں پاکستانی پریشانی سے دوچار تھے۔ پہلے تو ان کو مطلوبہ ویکسین لگوانے کیلئے اسلام آباد میں خوار ہونا پڑتا تھا۔ ویکسین دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کئی دن اسلام باد کے مخصوص ویکسی نیشن سینٹر پر ان پاکستانیوں کا احتجاج ہوتا رہا۔ پھر یہ لوگ افغانستان کا ویزہ لے کر پہلے کابل جاتے، وہاں دو ہفتے قیام کے بعد مطلوبہ ملک کو جا سکتے تھے۔ لیکن ایک ہفتہ پہلے ہی سعودی عرب نے افغانستان سے بھی پروازیں بند کر دیں ہیں۔ اس اچانک بندش سے کم از کم چار ہزار پاکستانی کابل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اب حکومت ان کو واپس لانے کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے، پروازیں کم ہونے کی وجہ سے ان کو سڑک کے ذریعے طورخم کے راستے واپس لایا جائے گا۔ ان پاکستانیوں کی مشکلات اور اضافی اخراجات میں حکومت بھی کسی نہ کسی حد تک ذمہ دار ہے، سب سے بڑی کمزوری تو ابھی تک سائنو ویک ویکسین کا سعودی عرب اور یو اے ای میں قبول نہ ہونا ہے۔ اس میں چین کو بھی شامل کر کے ان ممالک کو مذکورہ ویکسین کی کارکردگی پر مطمئن کرنا ضروری تھا۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ لگائی جانے والی ویکسین چین کی ہی ہے اور یہ ہر طرح کے لیبارٹری اور انسانی تجربات کے بعد ثابت شدہ ہے۔ پاکستان میں ابھی تک کسی ایسے فرد کے کورونا میں مبتلا ہونے کا کیس سامنے نہیں آیا، جس نے ویکسینیشن کرا رکھی ہو۔ نہ ہی اس کے کوئی سائیڈ ایفیکٹ دیکھے گئے ہیں، اب این سی او سی کو وزارت خارجہ کی وساطت سے، عرب برادر ممالک کو یہ باور کرانا چاہئے کہ جو ویکسین ہم اپنے شہریوں کو لگا رہے ہیں، وہ عالمی ادارہ صحت سمیت تمام دنیا کیلئے قابل قبول ہے۔ جہاں تک چوتھی کورونا لہر اور ایک بار پھر پابندیاں لگانے کا تعلق ہے تو اب یہ زیادہ مشکل ہوگا، کیونکہ عوام معمول کی زندگی اپنا چکے ہیں۔ تجارتی اور تفریحی سرگرمیاں بحال ہوچکی ہیں، تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں، اب پابندیاں لگانا مشکل ہو جائے گا۔ گزشتہ رمضان میں بھی پابندیوں کی وجہ سے کئی شہروں میں لڑائی جھگڑے بھی ہوتے رہے، ان سب سے بچنے کا واحد حل تو یہی ہے کہ عوام خود حفاظتی اقدامات کریں۔ احتیاط کریں اور ماسک کو لباس کا مستقل حصہ بنائیں۔ یہ تو طے ہے کہ دنیا کو بھی مزید کئی سال کورونا کے ساتھ ہی گزارہ کرنا ہو گا۔ اس کیلئے ہمیں بھی تیار رہنا چاہئے اور معمولاتِ زندگی تبدیل کر کے احتیاطی تدابیر کو روزہ مرہ کی زندگی کا حصہ بنانا چاہئے۔ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل کرنا ضروری ہے اور اس میں ہم سب کا فائدہ ہے کیونکہ ایس او پیز پر عملدرآمد نہ ہو تو اس کا نتیجہ کورونا کیسز میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے گا اور بالآخر ایک بار پھر حکومت کو لاک ڈاؤن جیسے اقدامات اٹھانے پڑیں گے جو نہ صرف عوام کے لئے تکلیف کا باعث ہونگے بلکہ اس کے نتیجے میں معاشی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔