آزاد کشمیر کا انتخابی معرکہ

 آزاد کشمیر میں الیکشن مہم زور و شور سے جاری ہے، پولنگ 25 جولائی کو ہو گی اور اس کے لیے آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے تمام تر تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں۔ آزاد ریاست قائم ہونے کے بعد وہاں صرف ایک ہی جماعت مسلم کانفرنس کا وجود تھا، یہ جماعت کشمیری مسلمانوں کی اولین جماعت تھی، جو شیخ عبداللہ اور سردار غلام عباس نے قائم کی تھی، بعد میں شیخ عبداللہ کانگریس سے مل گئے اور سردار غلام عباس آزاد کشمیر کے بیس کیمپ سے آزادی کی جنگ لڑنے کیلئے آگئے۔ 1973 تک کشمیر میں مسلم کانفرنسں ہی برسر اقتدار رہی، 1973 میں پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو پہلی بار آزاد کشمیر میں بھی پیپلزپارٹی قائم کی گی، 1985 کے بعد پاکستان میں جب مسلم لیگ منظم ہوئی تو آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کو ہی مسلم لیگ قرار دیا گیا اور اس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس بڑی پارٹیاں بن گئیں، ان کے علاوہ جموں کشمیر لبریشن لیگ اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے نام سے بھی جماعتیں قائم ہوئیں، لیکن ان کے نظریات کو عوامی پذیرائی نہیں مل سکی۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اگر پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی تو آزاد کشمیر میں بھی پیپلز پارٹی جیت گئی، پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت تھی تو وہاں مسلم کانفرنس کامیاب ہوجاتی، اس کو کشمیری عوام کا شعور قرار دیا جائے کہ وہ حکومت پاکستان سے معاملات بہتر رکھنے کیلئے حکومتی پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں یہ ایک ریکارڈ ہے۔ گزشتہ دنوں اسی بات کا اعتراف پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے بھی کیا تھا، جب اسلام آباد میں ان سے آزاد کشمیر الیکشن کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا، وہی ہوگا، جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے، بہرحال اس بار الیکشن ہو رہے ہیں تو پاکستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ الیکشن لڑ رہی ہے، اس بار آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کے علاوہ مسلم لیگ ن بڑی جماعت کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہی ہے، یہ مسلم لیگ کا دوسرا الیکشن ہے، آزاد کشمیر میں مسلم لیگ کے فعال ہونے کی وجہ ہے یہ ہے کہ 2008 میں پاکستان مسلم لیگ ن نے مسلم کانفرنس کی سرپرستی چھوڑ کر مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں بھی قائم کر دی تھی، آزاد کشمیر مسلم لیگ کے قیام کے بعد017 میں پاکستان مسلم لیگ نے آزاد کشمیر میں بھی حکومت بنالی۔ اس کی کارکردگی پر عوام الیکشن میں ووٹ کے ذریعے ہی اظہار کریں گے۔ البتہ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ ابھی مسلم لیگ کی حکومت قائم تھی تو حکومت کے کئی وزرا، ارکان قانون ساز اسمبلی اور سرکردہ لیڈر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔تحریک انصاف نے اس بار اپنی حکومت قائم کرنے کیلئے ایک نئی شخصیت کو میدان میں اتارا ہے، جو ایک کاروباری شخصیت سردار تنویر الیاس ہیں، جو اس وقت وزیر اعلی پنجاب کے مشیر بھی ہیں۔تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود ہیں، جو سابق وزیر اعظم بھی رہے ہیں۔انہوں نے اپنی سیاست جموں و کشمیر لبریشن لیگ سے شروع کی تھی مگر جلد ہی اسے چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آگئے اور وزیراعظم بھی بن گئے بعد میں وہ مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور پیپلز مسلم لیگ کے نام سے نئی جماعت بھی بنائی مگر مسلم لیگ ن نے ان کی سرپرستی نہیں کی اور وہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔اس بار سردار تنویر الیاس کو آگے لایا گیا۔جہاں تک الیکشن مہم کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو تین جلسے کرکے امریکہ چلے گئے ہیں۔وہ پولنگ سے پہلے ایک بار پھر آزاد کشمیر آئیں گے۔مسلم لیگ ن کی الیکشن مہم مریم نواز چلا رہی ہیں اور کامیابی سے جلسے کر رہی ہیں۔بلاول اور مریم ابھی تک اپنے اپنے شخصی جادو اور روایتی الزامات سے ہی ماحول کو گرما رہے ہیں ان کے برعکس حکمران تحریک انصاف کی الیکشن مہم چند وفاقی وزرا چلا رہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان بھی مظفرآباد جائیں گے، لیکن وہ عید کے بعد اور پولنگ کے قریب جائیں گے۔آزاد کشمیر کے اندر تو ابھی تک مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں مقابلہ ہے۔حکومت بنانے کا دارومدار وادی اور جموں کے مہاجرین کی ان 12 نشستوں پر ہوتا ہے، جن میں 9 پنجاب 2 سندھ اور 1 کے پی میں ہے۔روایتی طور پر یہ سیٹیں وہی امیدوار جیتتے ہیں، جن کو یہاں حکمران جماعت کی حمایت حاصل ہو۔اب اگر تحریک انصاف آزاد کشمیر کی آدھی سیٹیں جیت جاتی ہے تو بھی پاکستان کے اندر مہاجرین کی سیٹیں وہ حاصل کرلے گی، جس سے حکومت بنانے کا موقع مل جائے گا اگرچہ الیکشن مہم میں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے قائدین دھاندلی نہ ہونے دینے کا دعوی کرتے ہیں، لیکن نتائج کو وہ قبول کر لیں گے کیونکہ یہ سب کو پتہ ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں ہمیشہ سے کیا رجحان رہا ہے۔