بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے کم آبادی والا صوبہ ہے۔۔اب صورت حال یہ ہے کہ یہ صوبہ جتنا بڑا ہے اتنی ہی اس کی آبادی باقی صوبوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اسی لئے جب آبادی کے لحاظ سے جب ذرائع کی تقسیم ہوتی ہے تو اس صوبے کو مقابلتاًکم حصہ ملتا ہے۔ یہاں قدرتی وسائل کی فراوانی ہے گو پاکستان بننے کے بعد اس صوبے ذرائع کو ایکسپلور کرنے میں بہت کام کیا گیاہے مگر اب بھی اس صوبے میں بہت سے کام کی ضرورت موجود ہے۔اب بات کرتے ہیں سی پیک کی تو یقینا اس نے سب سے پہلے بلوچستان کی قسمت بدلی ہے اور یہاں پر اربوں کے ترقیاتی منصوبے پروان چڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان نے گوادر کے دورے کے موقع پر جن منصوبوں ور چین کے ساتھ مل کر ترقی کے جن اقدامات کا تذکرہ کیا اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جلد ہی بلوچستان بھی ترقی کے لحاظ سے ملک کے دوسرے صوبوں کے برابر آجائیگا بلکہ جس قسم کے وسائل سے یہ صوبہ مالامال ہے اور جس تیزی سے ان وسائل سے استفادہ کرنے کے منصوبوں پر عمل ہو رہاہے تو یہ کہنا زددہ صحیح ہوگا کہ بلوچستان کو شمار ملک کے سب سے ترقی یافتہ صوبوں میں ہوگا۔ جس سے ان قوتوں کو لگام لگانے میں مدد ملے گی جو یہاں کے امن کو سبوتاژ کرتی رہیں اور صوبے کی پسماندگی کے بہانے لوگوں کو بہکاتی رہیں۔ بلوچستان میں ترقی کاسفر تیز ہونے سے پورے ملک میں خوشحالی کا منزل قریب آئے گا کیونکہ یہاں پر سی پیک کے تحت جو منصوبے پروان چڑھ رہے ہیں وہ نہ صرف بلوچستان، بلکہ پورے ملک اور خطے کیلئے نہایت اہم ہیں۔گوادر بندر گاہ جس اہم محل وقوع پر واقع ہے اس کے باعث یہ دنیا کے مختلف خطوں کو آپس میں جوڑنے کا ذریعہ بن سکتا ہے اس سے چین کوپٹرول کی ترسیل بہت کم خرچے میں تیزی کے ساتھ ممکن ہے اور دوسری طرف چین کی مصنوعات کو باقی دنیا تک پہنچانے کیلئے بھی گوادر دورازے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت چین دنیا کا تجارتی مرکز بنتا جارہاہے اس کا مطلب یہ ہے کہ گوادر کو آنے ولے دنوں میں اس لحاظ سے پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنتاجا رہا ہے، وسطی ایشیاء سے لے کر یورپ اور افریقہ تک چین کی تجارت کیلئے گوادر اہم ذریعہ ثابت ہوگا۔تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ بلوچستان میں امن مستحکم بنیادوں پرقائم ہو۔اس ضمن میں حکومت کو کثیر الجہت پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔