ہم کہ ٹھہرے خالص دیہاتی ہمیں اپنے بچپن، جس کی عمر دسویں پاس کرنے کے بعد بھی پوری طرح حاوی تھی، سینما جانے کی پابندی اسی طرح تھی۔ فلم دیکھنا اسی طرح معیوب سمجھا جاتا تھا کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑا جرم ہے۔ ویسے عید کے دوسرے یا تیسرے دن ہم سے بڑی عمر والے لڑکے ضرور ایبٹ آباد جاتے اور فلم دیکھتے۔ اُس وقت ایبٹ آباد میں تین سینما ہوا کرتے تھے۔ جن میں سے دو تو اب ختم ہی ہوچکے ہیں اس لئے کہ اب تو گھر گھر بلکہ جیب جیب میں سینما موجود ہے۔ اور ہو سکتا ہے یہ تیسرا بھی جلد ہی ختم ہو جائے۔ جب کی بات اور ہے کہ انٹر ٹینمنٹ کا ایک ہی ذریعہ ہوا کرتا تھا اور وہ تھا سینما۔ عید کے تیسرے دن جب ہمارے دوست جو ہم سے کچھ بڑے تھے اور جن کو ایبٹ آباد جانے کی آزادی تھی وہ جب عید کے تیسرے دن ایبٹ آباد جا کر فلم دیکھ کر آتے تھے تو کئی دن تک اس فلم کی سٹوری ہم چھوٹوں کو سنایا کرتے تھے اور ہم اُسی طرح غورسے یہ سٹوری سنا کرتے تھے کہ جیسے ہم دادی اماں سے رات سونے سے پہلے کہانی سنا کرتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ دادی اماں کی کہانی ماضی بعید میں ہوتی تھی اور فلم کی سٹوری فعل حال میں ہوا کرتی تھی۔ ہم اُن دوستوں سے،کہ جو عید کے تیسرے دن فلم دیکھ کرآتے تھے، فلم کی سٹوری پورے انہماک سے سنا کرتے تھے اور دل میں کہا کرتے تھے کہ کب ہم بڑے ہوں گے اور سینما ہال میں جا کر فلم دیکھ سکیں گے اور پھر یہ ہوا کہ ہم نے دسویں پاس کر لی اور ایبٹ آباد میں گیارھویں جماعت کے طالب علم بن گئے۔ اب تو روزانہ ہم تاج محل سینما کے سامنے سے گزر کر کالج جایا کرتے تھے اور سینما کے بڑے بورڈ پر نئی فلم کا پوسٹر لگا دیکھتے تھے۔ مگر دیہاتی پن البتہ اپنے اندر رچا بسا تھا اس لئے سینما ہال کو باہر سے تو روزانہ ہی دیکھتے تھے مگر اندر جانے کی اجازت البتہ نہیں تھی۔ در اصل ہمارے ہاں لڑکے سینما جاتے تھے اور فلم دیکھتے تھے مگر اس طرح کہ جیسے وہ کوئی جرم کر رہے ہوں۔ ہر وقت یہ ڈر رہتا تھا کہ کوئی گاؤں والا دیکھ لے گا تو کیاہو گا۔اور اگر گھر والوں کو پتہ چل گیا کہ ہم فلم دیکھنے گئے ہیں تو شائد ہماری پڑھائی بھی ختم ہو جائے۔ اس لئے ہم فلم کے پوسٹر وں کو باہر سے تو دیکھ سکتے تھے مگر اتنی جرات نہیں ہوتی تھی کہ سینما گھر کے اندر بھی جا سکیں۔ اور فلم دیکھنے کیلئے تو ہال کے اندر جانا ہوتا تھا ہم تو ہال کے باہر لگی تصویروں کو بھی دیکھنے سے گھبراتے تھے کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہو گا۔یہ ”کیا ہو گا“ کئی سال ہمارے پیچھے پڑا رہا۔اور پھر یوں ہوا کہ ہمیں ایبٹ آباد میں ہی گھر لے کر رہنا پڑا۔ اس لئے کہ اب کالج میں کام زیادہ ہو گیاتھا اور ہم روزانہ گھر جا کر کام ختم نہیں کر سکتے تھے۔ اب جو ایبٹ آباد میں ہی رہائش ہو گئی تو اب اتناہو گیا کہ ہم آخری شو دیکھ سکتے تھے اس لئے کہ آخری شو میں کسی بھی گاؤں والے کے سینما میں ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح ہم نے کچھ نہ کچھ کھل کھیل کر سینما ہال میں جا کر فلم انجوائے کرنے کی آزادی حاصل کر لی۔ لیکن پھر بھی ایک ڈر رہتا ہی تھا کہ اگر بھائی جان کے کسی کولیگ نے جو ایبٹ آباد ہی کا رہائشی ہو اگر دیکھ لیا تو کیا ہو گا۔ بس اس ”کیا ہوگا“ نے ہمیں بہت سی بیماریوں سے کہ جو عام طور پرنوجوانوں کو ہو جاتی ہیں،ہم کو بچائے ہی رکھا۔ اس کے علاوہ ہمارے بھائی جان کے کچھ کولیگ ایبٹ آباد کے نواحی گاؤں کے رہنے والے تھے ان سے بھی ہم کو جان بچانی پڑتی تھی۔ ایسا بھی ہوتا کہ ہم شام کو سیر کو نکلے ہیں اور بھائی جان کے کسی کولیگ سے مد بھیڑ ہو گئی تو اگلے دن ہمیں ڈانٹ پڑنے کا انتظام ہو گیا۔ ہم لاکھ کہتے کہ بھائی جان ہم تو سیر کو نکلے تھے کہ فلاں صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ مگر پھر بھی ہم پر لوفری کا لیبل لگ ہی جاتا۔ بس اسی ڈر نے ہمیں بہت سے غلط راہوں پر چلنے سے روکے رکھا جب کہ ہمارے بہت سے کلاس میٹ کچھ ایسے پھنسے کہ وہ انٹر بھی پاس نہ کر سکے۔ اور کچھ جنہوں نے انٹر تو کر لی مگر ڈگری کلاس میں خوار ہو گئے۔ اکثر اوقات یہ بزرگوں کا ڈر جسے آپ اُن کا ادب بھی کہ سکتے ہیں اگر چھوٹوں میں نہ ہو تو چھوٹے اپنی زندگی برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ یہ جو بزرگوں کا ادب ہے اس نے بہت سی برائیوں سے نوجوانوں کو روک رکھا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی مہربانی ہے۔ہمارا گھریلو نظام اسی لئے بہت عمدہ نظام ہے کہ یہ نوجوانوں کو گمراہ نہیں ہونے دیتا۔ بات فلم بینی سے چلی تھی اور اس چھوٹی سی رکاوٹ نے ہمیں بڑی برائیوں سے بچا لیا۔ اور ہم آج جو کچھ ہیں وہ اسی نظام کی وجہ سے ہیں۔