افغانستان کے اندر کوئی سنجیدہ خانہ جنگی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے لیے مشکلات میں اضافہ ضرور ہو رہا ہے۔ ان کالموں میں پہلے بھی یہ بات لکھی گئی تھی کہ افغانستان میں اس وقت 1990 کے حالات نہیں ہیں، جب نصف درجن مسلح گروپ موجود تھے، اب صرف ایک ہی سیاسی اور عسکری قوت موجود ہے، جو طالبان ہیں۔دیگر مجاہد تنظیمیں بھی اس طویل عرصہ اور مرور زمانہ میں تحلیل ہو گئیں۔اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو طالبان بے سروسامانی کے باوجود امریکہ سے نہیں ہارے ان کو کوئی مقامی فوج کیسے ہرا سکتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی طرف سے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو سفید جھنڈی دکھانے کے بعد، بھارت نے کابل میں اسلحہ و بارود بھیج کر خانہ جنگی چھیڑنے کی کوشش کی ہے اور اس وقت یہ امریقینی ہے کہ بھارت افغانستان میں امن سے زیادہ یہاں پر بد امنی اور خانہ جنگی میں دلچسپی لے رہا ہے کیونکہ اس طرح اسے یہاں پر پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کی سہولت میسر ہے اور یہاں پر اگر امن ہو اور پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے والی حکومت قائم ہو تو بھارت کیلئے سازشوں کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ اس وقت طالبان کے ساتھ تمام ہمسایہ ممالک مذاکرات کر رہے ہیں اور مستقبل کے تعلقات کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ہمارے لئے دوسرا مشکل مرحلہ ترکی کا کابل میں فوج رکھنے اور ائرپورٹ کی سکیورٹی سنبھالنے کا فیصلہ ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان ایک دانشور اور قائد ہیں، ان کو افغانستان کی صورتحال سے مکمل طور پر باخبر کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ طالبان کا موقف اس حوالے سے واضح ہے کہ قطر معاہدے کے مطابق اس سال اگست تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جانی چاہیئں، اس کے بعد جو وہاں رہے گا، اس کو قابض فوج سمجھا جائے گا اور اس کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ خود تو بھاگ گیا، اس کے ساتھ نیٹو کی افواج بھی واپس جارہی ہیں، لیکن ترکی کو کہا جا رہاہے کہ وہ کابل میں فوج رکھے۔ یہ ایک بڑی سازش ہے، طالبان نے اگر ترکی کی فوج کو غیر ملکی قابض فوج قرار دے کر کوئی کاروائی کی تو پاکستان کیلئے بھی پریشانی کا باعث ہوگا۔ طالبان ترجمان کے انٹرویو پر ردعمل دینے کیلئے اسلام آباد میں ترکی کے سفیر احسان مصطفی یروکل نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ترکی کا افغانستان میں جو بھی کردار ہوگا، وہ خفیہ نہیں بلکہ افغان عوام کیلئے ہوگا.۔انہوں نے کہا کہ کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی کی ذمہ داریوں کیلئے امریکہ سے مذاکرات جاری ہیں۔ اسلام آباد میں ترک سفیر نے یہ نہیں کہا کہ ترکی کوئی کردار قبول نہیں کرے گا۔ امریکہ ترکی کو کابل میں فوج رکھنے پر اکسا کر بڑی گیم کھیل رہا ہے۔اگر کابل میں طالبان اور ترکی کا ٹکرا ہوتا ہے اورترکی مطالبہ کرتا ہے پاکستان اس کو سہولت دے،جبکہ طالبان یہ برداشت نہیں کریں گے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے تاہم اب ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میں نئے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے پالیسی تشکیل دی جائے اور حتی الامکان کوشش کی جائے کہ ترکی بھی اپنی فوج کابل میں نہ رکھے اس کیلئے ہمیں ہی مشکلات ہوں گی۔