ہار جیت ۔۔۔۔

کسی بھی مقابلے میں دو شخص یا دوٹیمیں مقابلے میں میدان میں اترتے یا اترتی ہیں تو ایک بات صاف ظاہر ہے کہ اس میں جیتنے والا ایک ہی شخص یا ایک ہی ٹیم ہو گی۔ ہاں یہ بات ہے کہ مقابلے سے قبل دونوں طرف کے شائقین اپنی ہی ٹیم کے جیتنے کا ذہن بنائے ہوتے ہیں اس میں یہ بات نا قابل قبول ہوتی ہے کہ دوسری ٹیم بھی جیت سکتی ہے۔ اس کا ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ چونکہ ہمیں صرف اپنی ہی ٹیم کے جیتنے کی سوچ ہوتی ہے اس لئے اگرٹیم ہار جاتی ہے تو ہمارا ذہن یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ٹیم کے ہارنے پرشائقین کو ایسی ٹھیس پہنچتی ہے کہ وہ اس کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمیں ہار ملتی ہے تو ہم اس کو برداشت نہیں کرتے۔ لیکن سوچنا یہ ہے کہ جو ٹیم آپ کی ٹیم کے مقابل ہے وہ بھی تو جیت ہی کیلئے کھیل رہی ہے۔ اب یہ وقت اور ہمت کا مقابلہ ہوتا ہے جس کو بھی وقت نے موقع دیا اور قسمت نے ساتھ دیا وہ جیت جاتا ہے او رجس کا دن نہیں ہوتاوہ ہار جاتا ہے۔ ہاں یہ ہار ا ور جیت وقت کی بات ہوتی ہے۔دیکھا جائے تو جو بھی ٹیم میدان میں اترتی ہے وہ جیت کیلئے ہی اترتی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وقت کس کا ساتھ دے جاتا ہے۔بعض دفعہ ایک کمزور ترین ٹیم بھی ایک بہترین ٹیم کوہار سے دوچار کر دیتی ہے۔ یہ تو ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ دنیا کی بہترین ٹیم مقابلے میں ایک کمزور ترین ٹیم سے ہار جاتی ہے۔ ایک کرکٹ کے عالمی مقابلے میں بنگلہ دیش کی ٹیم پہلی دفعہ شا مل ہوئی اور اس کا مقابلہ پاکستان جیسی بہترین ٹیم کے ساتھ ہواتو بنگلہ دیش کی نومولود ٹیم پاکستان کی ٹیم سے جیت گئی۔ بنگلہ دیش کی ٹیم کے کیپٹن کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستانی ٹیم کو ہرا دیا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ورلڈکپ جیت لیا ہے۔ اس لئے کہ پاکستان کی ٹیم ورلڈ کپ کیلئے فیورٹ تھی اور ہوا بھی یہی کہ پاکستان نے ورلڈ کپ جیت لیا تھا مگر یہ ٹیم بنگلہ دیش کی نو مولودٹیم سے پہلے مقابلے میں ہار گئی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقابلے میں جیت کیلئے پوری کوشش اور تیار ی توہونی چاہئے مگر جیت ہار میں بہت سے عوامل کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ تو سامنے کی بات ہے کہ مقابلوں میں بہت سی کمزور ٹیمیں بہت سی طاقت ور ٹیموں کو مقابلے میں ہرا دیتی ہیں اس لئے کہ تمام عوامل ان کی جیت کی راہ ہموار کر لیتے ہیں۔ چاہے اس مقابلے میں وہ ٹیم جو ایک کمزورٹیم سے ہاری تھی ساری مقابل کی ٹیموں کو ہرا کر ٹورنامنٹ جیت لیتی ہے مگر ایک کمزور ٹیم سے ہار کا داغ اس کی پیشانی پرضرور لکھا جاتاہے۔ جہاں کسی بھی ٹیم کی جیت اُس کے اچھے کھیل میں پوشیدہ ہے وہاں ماحول، تماشائیوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کا بھی اہم کردار ہوتاہے۔ حال ہی میں قومی ٹیم انگلینڈ میں مسلسل کئی شکستوں سے دو چار ہوئی۔ ایسے میں جہاں بہت سے ماہرین اور پرانے کھلاڑی تنقید پر اتر آئے ہیں اور وہ ٹیم کی کارکردگی پر سخت رد عمل دے رہے ہیں وہاں بہت سے ایسے بھی ہیں جو اسے کھیل کا حصہ سمجھتے ہوئے مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کے حوالے سے مشورے دے رہے ہیں۔ اور دیکھا جائے تو سب سے بہتر پالیسی اعتدا ل ہے، اگر ٹیم جیتی ہے تو ا س کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے سے بھی گریز کیا جائے اور اگر ہار جائے تو اس پر ایسا رد عمل نہیں دینا چاہئے کہ جیسے اس شکست سے زندگی ہی ختم ہو گئی۔بلکہ زندگی جاری ہے اور اس میں مستقبل کی بہت سی فتوحات بھی شامل ہوتی ہیں۔ قومی ٹیم نے آخری میچ میں اچھی بیٹنگ کی تاہم مخالف ٹیم نے ان سے بھی زیادہ اچھی بیٹنگ کی۔ اس طرح اچھا کھیل کر ہی جیت حاصل کی جاتی ہے اور انگلینڈ کے ساتھ میچز میں یہی ہوا۔ اب بہت سے اور مراحل بھی باقی ہیں دیکھئے کہ اس میں قومی ٹیم کیسا کھیل پیش کرتی ہے۔ اس امر کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ کھیل کو ہم زندگی اور موت کا معاملہ نہ بنائے بلکہ اسے کھیل کی حیثیت ہی دی جائے تو پھر نہ بے جا تنقید ہو گی اور نہ ہی معمولی کامیابی پر گھمنڈ کی ضرورت ہوگی دیکھا جائے تو بیشتر ممالک کی ٹیمیں بھی کبھی مقابلے جیتی ہیں اور کبھی ہارتی ہیں تاہم انہوں نے کبھی بھی اس پر اتنا واویلا نہیں مچایا جتنا ہم مچاتے ہیں۔