اب بوئے گل نہ باد ِ صبا مانگتے ہیں لوگ

 موسم گرما کا ہو اور آغاز ساون کا ہو تو ذہن میں تیز ہوائیں بادل رم جھم بارش اور عمدہ پکوان ہلچل سی مچانے لگتے ہیں اور انہی موسموں میں منچلوں کے دلوں میں باغوں اور پہاڑوں کی اور سیر سپاٹے کیلئے جانے کی اُمنگیں جاگنے لگتی ہیں، منچلے کی بات ہو تو اس میں عمر کا کوئی عمل دخل نہیں ہو تا کہ منچلا ہو نا تو دل کی ایک کیفیت کا نام ہے جو بچپن،لڑکپن، جوانی، ادھیڑ عمر یا بڑھاپے سے نہیں جوڑی جاسکتی،یہ وہی کیفیت ہے جس کی طرف گرو جی نے اشارا کر دیا تھا 
 گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
 رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
ساون میں اب بھلے سے باغوں میں جھولے نہ پڑتے ہوں گھروں میں ساون کیلئے مخصوص پکوان نہ پکتے ہوں مگر پھر بھی جب بادل گھر کر آجائیں گھنگھور گھٹائیں آسمان کے آنگن میں کھیلنے کیلئے نکل آئیں اور ان کالی گھٹاؤں کے بیچوں بیچ لرزتی کانپتی بجلی گھبرائی گھبرائی کوندتی چلی جائے تو یہی ساون کا بھیگا بھیگا سا موسم دل میں سر خوشی کی ایک رومانی سی جوت جگانے لگتا ہے، اور چاندنی راتوں میں فراخ آسمان کے ماتھے کا جھومر چاند تاروں کی بارات لے کر اپنے لئے جب راستہ ڈھونڈنے نکلتا ہے تو کالی گھٹاؤں کی کتنی ہی ٹولیاں سرمئی، نارنجی، سنہری اور شنگرفی ہو نے لگتی ہیں، ایک دلکش تماشا آسمان کے پردے پر کھیلا جا رہا ہو تا ہے اور اگر چاند اپنے کارواں کے ساتھ سرخرو ہو جا تا ہے، تو شب ماہتاب منانے کیلئے کتنے ہی ارمان دلوں میں تڑپنے لگے ہوں گے، کیف بھوپالی نے اس کیفیت کی کیا خوب شعری تصویر بنائی ہے۔
 کھیلنے کیلئے بچے نکل آئے ہوں گے 
 چاند اب اس کی گلی میں اتر آیا ہو گا 
چاند سے رشتہ تو بچپن میں لوریوں سننے کے زمانے سے جڑ جاتا ہے لیکن یہ رشتہ جوانی میں جوبن پر ہو تا ہے، جب چاند میں، تقلید ِ میرؔ میں، کوئی نظر آنے لگتا ہے، پورے چاند کی راتوں میں پہروں اسے دیکھا جاتا ہے باتیں کی جاتی ہیں دل کا حال سنایا جاتا ہے،اور کہتے ہیں کہ
 تنہائیوں میں چاند سے مکالمہ کرنے والے لوگوں کے دلوں میں گداز اور روّیوں میں توازن اور ملائمت پیدا ہو جاتی ہے، راتیں چاندنی ہوں یا اماوس کی نیند نہ آنے کی صورت میں کبھی اختر شماری کا ایک معتبر حوالہ تھیں، لیکن اب کھلی چھتوں پر سونے کی روایت محض چند پہاڑی علاقوں یا دیہاتوں تک محدود رہ گئی ہے اس لئے،اب بند کمروں میں جگنو کی طرح جل بجھ کرنے والی سیل فون کی روشنی سے ہی کسی کے جاگنے سونے کا اندازہ ہو سکتا ہے، خصوصاََ جوانی میں جب مرادوں کے دن اور امنگوں کی راتیں ساری ساری رات جگاتی ہیں تو کہیں کوئی قتیل شفائی کہہ اٹھتا ہے۔
 ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہو گا
 یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ 
 ادھر اگر انگریزی روزمرہ میں بچے کی پرسکون نیند مشہور ہے، اور اس کیفیت کے اظہار کیلئے تو زبان یا علاقے کی کوئی قید نہیں جب سوتے سوتے اچانک بچے کے ہونٹوں پر ایک معصوم سی مسکراہٹ نمودار ہو تی ہے،کوئی نہیں جانتا کہ اس نے نیند میں کیا دیکھا اور نہ ہی بچہ بتا سکتا ہے اسی طرح ہمارے ہاں جوانی کی لا اُبالی نیند بھی مشہور ہے، گویا نشور واحدی کا ہمزبان بننے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ
 کوئی آج تک نہ سمجھا کہ شباب ہے تو کیا ہے
 یہی عمر جاگنے کی یہی نیند کا زمانہ
ساون بھادوں کی رتوں میں بھلے سے اب باغوں میں میلے نہ لگتے ہوں، جھولے نہ پڑتے ہوں، احباب کنار آب نہ جاتے ہوں سکھیاں مل
 بیٹھنے اور دھما چوکڑی کے پروگرام نہ بناتی ہوں بچیاں مل جل کر گڈا گڈی کا بیا ہ نہ رچاتی ہوں، لیکن میری عمر کے دوست سی ایچ آتما،پنکج ملک،کملا جھریا، کانن بالااور کے ایل سہگل کے سنگ ”اے دل ِ بے قرار جھوم“ کی لے پر بیتے دنوں کو پکارتے چلے جاتے ہیں، میں نے کہا نا کہ رتوں کی اپنی ایک ادا ہوتی ہے وہ آپ کو چھیڑتی گدگداتی ہے، اور آپ ان کے رحم و کرم پر ہو تے ہیں ممکن ہے کہیں ایسے لو گ یا ایسے کٹھور دل مو جود ہوں جنہیں کھلتے ہوئے گلابوں کی رت میں مشام جان کو معطر کرتی ہوئی خوشبو سے کوئی سروکار نہ ہو یا پھر رم جھم برسنی بوندوں سے کوئی غرض نہ ہو یا کسی گلی کوچے سے گزرتے ہوئے معصوم بچوں کو کھیلتے دیکھ کر انہیں نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہوں،اللہ کی دنیا بہت بڑی ہے ہوں گے ایسے بھی ہوں گے مگر اکثریت ان کی ہے جو پشتو زبان کے قادر الکلام شاعر حاجی سمندر خان سمند ر کی طرح ریڈیو پاکستان پشاور سے پشاور صدر میں اپنی رہائش گاہ کی طرف اپنے روز مرہ کے معمول کے مطابق پیدل جاتے ہوئے کتنی ہی دیر تک راستے میں پڑنے والے ”کمپنی باغ“ (خالد بن ولید پارک) کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر روشن چہروں والے بچوں کو باغ میں کھیلتے دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے۔ البتہ ساون بھادوں میں بارشیں جب روٹھ جاتی ہیں تو پھر بھی یار لوگ چھت کے نیچے وقت بتانے کی بجائے کھلے میں رہنا محض اس لئے پسند کرتے ہیں کہ گزرے ہوئے ”ہاڑھ“کے موسم اور آنے والے ’اسو“ کے مہینے میں  لو‘ کے امکانات زیادہ ہو تے ہیں لیکن اگر مون سون مہربان ہو جائے تو برسات پر لطف گزرتی ہے، تاہم اگر بارش کے فورا بعد تپتے سورج کی حدت سے حبس کی سی کیفیت پیدا ہو جائے تو پھر آسمان کی طرف اٹھنے والی نظروں اور دعا کیلئے اٹھے ہوئے ہاتھوں میں ایک ہی عرضی نظر آتی ہے جسے دیکھ کر جوش نے کہا تھا۔
 اب بوئے گل نہ باد ِ صبا مانگتے ہیں لوگ
 وہ حبس ہے کہ لْو کی دعا مانگتے ہیں لوگ