واسو ہائیڈرو پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی اور پاکستانی ورکروں کی بس کو پیش آنے والا حادثہ افسوس کے ساتھ لمحہ فکریہ ہے کہ دشمن ایک بار پھر ہمیں زک پہنچانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔خدانخواستہ اگر یہ تخریب کاری ہے تو یہ نہ صرف پاک چین دوستی کے خلاف کاری وار ہے، بلکہ علاقائی ترقی اور مستقبل کی خوشحالی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی ہے۔ سی پیک اور چین کے باشندوں کے حوالے سے دشمن کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں، چین کے انجینئرز اور اہل ہنر پر حملہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ سی پیک سے پہلے بھی گوادر بندرگاہ کی تعمیر میں کام کرنے والے چینی انجینئرز پر بھی اس طرح کے قاتلانہ حملے ہوتے رہے اور کم از کم 30 چینی گوادر میں بھی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں.بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی کسی شک و شبے سے بالا تر ہے۔اسی تناسب سے آپریشن بھی جاری رہتے ہیں، لیکن کوہستان کے علاقے میں حالات بڑی حد تک انتظامیہ اور سکیورٹی کنٹرول میں تھے۔یہ بات طے ہے کہ چینی باشندے جہاں بھی کام کرتے ہیں، ان کو فول پروف سکیورٹی دی جاتی ہے۔ہم نے کئی بار اسلام آباد کی مارکیٹوں میں بھی دیکھا ہے کہ چینی باشندے شاپنگ کر رہے ہوں تو ان کے ساتھ باوردی اور عام کپڑوں میں بھی سکیورٹی اہلکار نگرانی کر رہے ہوتے ہیں۔ پروجیکٹ سائیٹس پر تو زیادہ سیکورٹی ہوتی ہے اور پھر داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، جس نے 2023 میں مکمل ہونا ہے، جو ساڑھے گیارہ لاکھ ایکڑ پانی ذخیرہ کرنے اور 4320 میگاواٹ سستی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پاکستان کے دشمنوں کو کیسے برداشت ہو سکتا ہے۔اس کی تعمیر کیلئے چین کی تکنیکی اور مالی مدد ہمارے لئے فخر کا باعث ہے اس لیے چین کے ورکروں کی حفاظت پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں اور پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں سے کس ملک کو تکلیف ہے، اور اس سے پہلے ایسے واقعات میں کون ملوث رہا ہے، ابھی چند ہفتے پہلے ہی لاہور میں ایک کار بم دھماکہ ہوا تھا، اس میں ملوث افراد اور سہولت کاروں کا تفتیشی اداروں نے دو دن میں کھوج لگا لیا تھا اور حسبِ توقع دہشت گردوں کا کھرا بھارت کی خفیہ ایجنسی را تک پہنچتا ہے، داسو پروجیکٹ کو سبوتاژ کرنے کے پیچھے بھی یقینا بھارت کا ہی ہاتھ ہے، اور وہ ایک ہی بار میں پاکستان اور چین، دونوں دشمنوں کو صدمہ پہنچانے اور اس سے بڑھ کر دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے رشتے کو کمزور کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ پاکستان نے اس حادثے کے فوری بعد تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، اب چین کی تفتیشی ٹیم بھی اسلام آباد پہنچ چکی ہے، دونوں ممالک کی قیادت آپس میں رابطے میں ہیں اور اس بات کیلئے پر عزم ہے کہ دوستی اور ترقی کے دشمن کی جلد شناخت کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، چین کو اعتماد ہے کہ پاکستان کی طرف سے چینی شہریوں کی حفاظت کا معقول انتظام ہے، لیکن دہشت گرد کسی معمولی کمزوری سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ داسو حادثے میں اگر تخریب کاری کے پہلو سامنے آتے ہیں تو اس حوالے سے مزید موثر اقدامات کی ضرورت پیش آسکتی ہے یعنی اب سیکورٹی اداروں کو پلان میں مزید نظر ثانی کر کے، مستقبل میں کسی ممکنہ دہشتگردی کا راستہ بند کرنا ہوگا، جن گاڑیوں میں مہمان آتے جاتے ہیں، ان کی ہمہ وقت نگرانی بہت ضروری ہے۔حالیہ واقعے کے ذمہ داروں کو بھی جلد تلاش کر لیا جائیگا لیکن قیمتی جانوں کا جو نقصان ہوا، اس کی تلافی ممکن نہیں ہوگی، آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے مزید سخت نگرانی کی ضرورت بہرحال ہے۔ تاکہ پاک چین مشترکہ منصوبوں پر عمل درآمد تیزی کے ساتھ ہو اور یہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی ترقی و خوشحالی کا باعث بنیں۔