عید قربان اور ہم ۔۔۔۔

اس بار عید قربان ایسے حالات میں آئی ہے کہ پاکستان کا ہر شہری معاشی مشکلات کا شکار ہے اگرچہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں معقول اضافہ کیا ہے، لیکن ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ بھی کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ملازمین کو کسی حد تک مہنگائی کا مقابلہ کرنے کیلئے ریلیف ملی ہو، لیکن80فیصد سے زیادہ شہری ایسے ہیں، جو سرکاری یا نیم سرکاری اداروں کے ملازم نہیں ہیں۔وہ نجی اداروں میں کام کرتے ہیں یا روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرکے اپنے اور خاندان کیلئے دال روٹی کا بندوبست کرتے ہیں اور یہی شہری حد سے بڑھتی مہنگائی سے زیادہ متاثر ہیں۔آج کے دن قربانی ایک دینی فریضہ ہے۔اگرچہ حج اور زکو اۃکی طرح معاشی کشادگی سے مشروط ہے صرف صاحب نصاب بالغ مسلمانوں پر واجب ہے۔دین اسلام نے کسی پر اسکی استطاعت اور طاقت سے زیادہ عبادت کا بوجھ بھی نہیں ڈالا، مگر ہم خود کئی بار کسی عبادت کی روح کو سمجھے بغیراپنے لئے بوجھ بنا لیتے ہیں۔قربانی کے مخصوص جانور کو عید سے تھوڑا عرصہ پہلے خریدنا اور اس کو اپنے ساتھ مانوس کرنا اسلئے افضل ہے کہ اس جانور انس پیدا ہو جائے اور پھر اسکی قربانی کی جائے۔ جانور کا پوری عمر، جسمانی عیب سے پاک اور صحت مند ہونا ضروری ہے۔ اس کا بہت بڑا ہونا اور بہت مہنگا ہونا لازمی نہیں، نہ ہی بہت بڑا ہونا شرط ہے، لیکن ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جو جانور ہم خریدیں وہ بہت قیمتی اور سب سے منفرد دکھائی دے، بھلے وقتوں میں بڑی عید صرف قربانی اور گوشت کے حوالے سے ہوتی تھی۔اس عید پر نئے کپڑے اور جوتے وغیرہ خریدنے ضروری نہیں سمجھے جاتے تھے مگر اب تو عید کے حوالے سے مرغوب شاپنگ بھی ضروری ہو گئی ہے۔ قربانی کے حوالے سے اجتماعی قربانی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ مہنگائی ہے جس کے باعث بہت سے لوگوں کو الگ سے قربانی کرنے میں مالی مشکلات کاسامنا ہوتا ہے۔ اگر دیانت داری اور احساس ذمہ داری کیساتھ اجتماعی قربانی کا بندوبست ہو تو یہ عام شہریوں کیلئے بھی آسانی اور کفایت کا باعث  ہے اورسب سے اہم بات  یہ ہو کہ ریا کاری اور نمائش کا اثر ختم ہو جائے، جو کسی بھی عبادت کی روح کے منافی ہے. جہاں تک گوشت کی تقسیم کا تعلق ہے تو جب فریج اور فریزر ہماری زندگی میں نہیں آئے تھے، قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جاتے تھے، ایک اپنے لئے ایک عزیزو اقارب کیلئے جس کا مساوی متبادل واپس بھی مل جاتا ہے(اور ایک غربا و مساکین کیلئے اس طرح دو حصے کے مساوی اپنے لئے بچتا تھا۔عید انتہائی گرمی کے موسم میں آئی ہے۔ اتنی گرمی میں گوشت کو محفوظ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے، لیکن جدید سہولیات کی وجہ سے اب یہ پریشانی بھی کم ہوگئی ہے تاہم بسا اوقات بجلی بند ہونے اور لوڈ شیڈنگ کے باعث گوشت خراب ہونے خطرہ بھی رہتا ہے۔ اس میں مناسب یہی ہے کہ گوشت کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے حتی الوسع رشتے داروں اور پڑوسیوں میں گوشت تقسیم کی جائے اور خاص کر کم آمدن والے غرباء میں۔  اگر ہمارے محلے کے کسی گھر میں عید کے دن بھی گوشت نہ پکا ہواسلئے کسی تعلق والے کو گوشت دے سکیں یا نہیں، کسی غریب محلے دار یا رشتے دار کو گوشت ضرور پہنچائیں کہ قربانی کی قبولیت کیلئے یہ ضروری ہے۔اللہ تعالی ہمیں عبادت میں اخلاص کی دولت سے سرفراز فرمائے۔