مون سون کے بادلوں نے پشاور کے باسیوں کی عید قربان کا پہلا دن بہت ہی خوشگوار بنادیا تھا۔شنید ہے کہ بادل دل کھول کر برسے،میں حسب معمول عید کرنے اپنے گاؤں (اکوڑہ خٹک) میں تھا، عید کی صبح اور اس سے پہلے کی رات ساون کی بارشوں نے وہاں بھی خوب میلے لگائے تھے،عید کا دن بھیگا بھیگا ہی رہا اور ٹھنڈی ہوائیں لیکن مجھے رہ رہ کر خیال آ رہا تھا کہ جب بھی شہر خموشاں برائے فاتحہ جانا ہوتا ہے توخود رو گھاس کے سمندر میں سے گزرنا ہو تا تھا، جھاڑ جھنکار اور خارزار پودوں سے دامن بچانا محال ہو جاتا۔ والدین اورعزیز و اقارب کی آخری آرام گاہوں تک پہنچنا بہت مشکل ہو تا ہر لمحہ یہی دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں کسی قبر پر پاؤں نہ آ جائے، گاؤں کے مرکزی عید گاہ کی مغربی دیوار کے ساتھ دور تک پھیلا ہوا یہ قبرستان ہمارے بچپن اور لڑکپن کے زمانوں کے ایام عید اور محرم میں اس لحاظ سے آباد ہوتا کہ گاؤں کے رہنے والے اپنے اپنے پیاروں کی آخری آرام گاہوں کو نئے سرے سے بناتے اور سنوارتے تھے، سبزہ ئ بیگانہ کو ہٹا کر کوئی بھی سبز پودا یا بڑھنے والی سبز ٹہنیاں لگاتے قبروں کو ہموار کرتے مر مر کے ٹکڑوں سے انہیں ڈھک دیتے یا پھر گارے چونے کی مدد سے قبر کی مرمت کرتے اور پہلے پہل تو تازہ پھولوں کی چادر چڑھاتے مگر اس کی دو روزہ زندگی کی وجہ سے بعد میں کاغذی پھولوں کی چادریں چڑھانے کا چلن عام ہوا کہ بھلے سے خوشبو نہ سہی مگر تا دیر ان کی چمک دمک محفوظ رہتی تھی۔ قبرستان کے پہلو میں مرکزی عید گاہ (بلکہ زمانے تک یہی ایک عید گاہ تھا جہاں اکوڑہ خٹک ہی کے نہیں گرد و نواح کے کئی مضافات کے لوگ بھی نماز عیدین ادا کرنے یہاں آ تے تھے)۔ یہ عید گاہ گاؤں سے قدرے فاصلے پر تھا،مگر اب تو قریب قریب گاؤں کے وسط میں آ گیا کہ گاؤں کی توسیع نے چاروں اور اپنے پاؤں پسارنے اور پر پھیلانے شروع کر دئیے۔اس پر مستزاد بدلتے زمانے نے سہولت کی بانسری بھی بجانا شروع کردی ہے جس کا نتیجہ گھروں اور علاقوں کے قریب عید کی نماز کی ادائیگی کی صورت میں نکلا اور وہ جو پورے گاؤں کا عید کے موقع پر ملنے ملانے کا ایک عمدہ اور روایتی سلسلہ تھا ختم ہو گیا، عید کے دن عید گاہ کے مرکزی گیٹ کے پاس عید کا میلہ بھی لگتا تھا جہاں بڑوں کے لئے تو کم کم مگر بچوں اور لڑکے بالوں کے لئے کھانے پینے اور خریدنے کے لئے بہت کچھ ہو تا۔ بچپن میں عید کی خوشیوں میں بڑی خوشی اور دلچسپی عید گاہ جانا اور میلے میں گھومنا بھی ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں میری خوشی میں تھوڑی سی کھنڈت یہ ضرور پڑتی تھی کہ میں ان سٹالز لگانے والوں کے بارے میں یہ سوچتا تھا کہ آج عید کا دن ہے اور یہ آج بھی دکانیں لگائے ہوئے ہیں،کیا انہیں عید کی خوشی نہیں ہے کہ یہ چھٹی نہیں کر سکتے، پھر سوچتا کہ اگر یہ بھی چھٹی کر لیں تو میلہ کیسے لگے گا۔ بس اس طرح کے سوالوں کو بدقت تمام ذہن سے جھٹک کر ”مسیتو کچالو پیڑا والا“ کی ریڑھی کی طرف بڑھ جاتا، کئی دہائیاں اور پچاسوں دکانوں سے کچالو پیڑا کھانے کے بعد بھی وہ ذائقہ پھر کبھی میسر نہیں آیا۔ نہ ہی ”دامئی چھولے والے“ کے سے چھولوں کی چٹنی کہیں سے دستیاب ہو سکی۔ عید کے میلے اور قبرستان میں دعا کے بعد ہم سیدھا عید ملنے رشتہ داروں کے گھر جاتے مگر کوشش ہو تی کہ ان گھروں میں میزوں پر لگنے والے عید کے پکوانوں میں سے کم کم ہی کچھ کھائیں کیونکہ ہمیں اپنے پھوپھی کے گھر جانا ہو تا جہاں ’’چن بی بی“ (گاؤں بھر کے بچے انہیں سے قرآن پاک پڑھے ہیں)کو عید کی مبارکباد دیتے اور دعائیں لیتے اور ساتھ ہی وہاں ”آبی“ کے ہاتھ کی بنی ہو ئی کھچڑی ہمارا انتظار کر رہی ہو تی جانے وہ کتنی مقدار میں بناتیں کہ دن بھر مہمان آ تے مگر کبھی ہم نے یہ نہیں سنا تھا کہ کھچڑی ختم ہو گئی، بالکل آبی ہی کی بنائی ہوئی لسی کی طرح کہ جانے کہاں کہاں سے لوگ اپنے برتن لے کر آتے اور لسی لے کر جاتے تھے، میرا اس زمانے کا ایک دوست شکیل میرا کلاس فیلو بھی تھا اور قرآن بھی ہم اکٹھے پڑھتے رہے وہ اکثر کہا کرتا تھاکہ میں نے کئی بار دیکھا کہ ”چن بی بی“ کچھ پڑھ کر لسّی کے مٹکے پر پھونکتی ہے،تبھی یہ خالی نہیں ہو تا، کچھ بھی سہی مگر لسی یا کھچڑی تا دیر آنے والے مہمانوں کو ملتی تھی کھچڑی کی بڑی ڈش میں گرم گرم گھر ہی کا بنا ہوا گھی بھی ہو تا اور ساتھ ایک کٹوری میں دہی ہی سے بنا ہوا خوش ذائقہ شوربا بھی ہو تا یہ شوربا جو پشتو میں ’لاونڑ‘ کہلاتا تھا بڑی حد تک”پشاوری کڑی“سے ملتا جلتا تو ضرور تھا مگر اس میں بیسن نہیں ڈالا جاتا تھا اور پھر یہ ’کڑی‘ کی طرح گاڑھا بھی نہیں ہو تا تھا نہ ہی یہ کڑی کی طرح پکوڑوں یا انڈوں کا محتاج تھا یہ کچھ کچھ سوپ اور یخنی کی طرح بھی دکھتا تھا لیکن اس کا ذائقہ کمال ہو تا۔ کبھی کبھی گھر ہی کا جمایا ہوا دہی بھی کھچڑی کے ساتھ سرو ہو تا۔ دودھ دہی کی کوئی کمی یوں بھی نہیں تھی کہ گائے بھینسیں اور بکریاں اپنی تھیں، بچپن میں ان بھینسوں کی میں نے بھی بہت سواری کی ہے جب میں انہیں گھر کے پاس ہی دریائے کابل پر پانی پلانے لے جایا کرتا تھا۔ لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم۔عید کے باقی دن بھی ملنے ملانے اور ایک دوسرے کے گھر دعوتوں اور ضیافتوں کے لئے مخصوص ہو تے مگر اب تو یاد بھی نہیں کہ عید کے تینوں دن کبھی گاؤں میں گزارے ہوں، بس عید کا پہلا دن گزار کر رات گئے واپس پشاور آنا ہوتا ہے کہ عید کے دوسرے دن پشاور میں گویا ایک طرح نئے سرے سے عید کا پہلا دن مناتا ہوں، شہر کی زندگی کے اپنے ادب آداب اور تقاضے ہوتے ہیں، اب کے بھی یہی ہوا کہ عید کا آغاز تو برخوردار ذیشان کے بڑے ماموں منظور علی شاہ کے گھر سے آئی ہوئی لذیز کھچڑی سے ہوا، جو اپنے بزرگوں کی روایات کو برقرار کھتے ہوئے کھچڑی اور ”لاونڑ“ اب بھی بناتے ہیں، اس کے بعد قربانی سے فراغت کے بعد قدرے دیرصرف بڑے بھائی سید پیر محمد شاہ اور چھوٹے بھائی ناظم علی شاہ کے گھروں تک گیا مگر واپس پشاور پہنچا تو گھڑیوں میں دونوں سوئیاں گلے مل کرتاریخ بدل رہی تھیں۔ شہر خموشاں کی بات رہتی جا رہی ہے اب کے جب میں ابتسام گئے تو وہ گھاس اور جھاڑ جھنکا نہ تھا بارش کے سبب زمین بھی بہت نرم تھی آسانی سے والدین کی آخری آرامگاہوں تک بھی پہنچ گئے مگر دل بجھ سا گیا تھا کہ وجہ جو بھی رہی ہو اب قبرستان کے ایک بڑے حصے سے قبروں کے نشان مٹ گئے تھے میں نے جنوب کی طرف کی آبادی کو دیکھا تو ڈر گیا کہیں خدا نخواستہ آبادی کی توسیع کا یہ اژدہا کہیں مردوں کی ان آخری نشانیوں کو تو ہڑپ نہیں کر جائے گا کیونکہ وقت بھی یہ کھیل کھیلتا رہتا ہے آتش یاد آگیا۔
نہ گور ِ سکندر،نہ ہے قبر ِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے