بھارت امن کا دشمن۔۔۔۔۔۔۔

بھارت کی طرف سے افغانستان کی حکومت کو فوجی امداد کے بعد امریکہ نے بھی طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کر دی ہے، اگرچہ قندھار میں کی جانے والی بمباری سے طالبان کا زیادہ نقصان نہیں ہوا، لیکن یہ بات کھل گئی ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد بھی اسے نظر انداز کرنے کو تیار نہیں، بالخصوص جب چین، افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کی ریاستوں تک رسائی کے منصوبے بنا رہا ہو اور روس کے ساتھ مل کر علاقے میں نئی سٹریٹیجک پالیسی تشکیل دے رہا ہو۔ اس وقت امریکہ اگر کسی ملک کے ساتھ کھل کر دشمنی کا اظہار کر رہا ہے تو وہ چین ہے، امریکہ 7 کھرب ڈالر اور سینکڑوں فوجیوں کی ہلاکت سے بھی افغانستان میں اپنے لیے جگہ نہیں بنا سکامگر چین امن اور ترقی کے چند میٹھے بول اور چند ارب ڈالر کے ساتھ،افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو اپنا بنا رہا ہے۔ یہ بات امریکہ کو کس طرح قابل قبول ہوسکتی ہے، لیکن فی الحال امریکہ اس کا کوئی توڑ بھی نہیں کر سکتا، ہاں البتہ بھارت کے ساتھ مل کر افغانستان کو ایک بار پھر بدامنی کی بھینٹ چڑھا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں دو حکومتیں ایسی ہیں جن کا مفاد اس میں ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکتی رہے، اور وہ بھارت اور موجودہ افغان حکومت ہے۔امریکہ اب باہر بیٹھ کر بمباری کے ذریعے خانہ جنگی کی آگ بڑھا رہا ہے۔ دوسری طرف طالبان روزانہ کی بنیاد پر مغربی میڈیا کے ذریعے، دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ طاقت کے ذریعے کابل پر قابض نہیں ہونا چاہتے، بلکہ ایک وسیع البنیاد حکومت کے حامی ہیں تاہم اس کیلئے اشرف غنی اینڈ کمپنی کو کابل چھوڑنا ہو گا،طالبان کا کابل حکومت کے حوالے سے موقف نیا نہیں۔ ادھر طالبان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان روایات کے مطابق خواتین کو پردے میں رہ کر ہر طرح کی آزادی ہو گی، حتی کہ سیاست کی بھی۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک طالبان کے اس موقف کو قبول کر کے، مستقبل میں ان کے ساتھ چلنے پر تیار ہیں، مگر صرف بھارت ایسا ملک ہے جو ہر صورت میں کابل میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے موجودہ افغان حکومت کا حامی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کا افغانستان کے عدم استحکام سے یہ مفاد وابستہ ہے، کہ وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرے اور دہشت گردی کو فروغ دے اور اگر کابل میں کوئی منتخب افغان حکومت قائم ہوتی ہے تو بھارت کو سفارتی لبادے میں غیر سفارتی اور جارحیت پر مبنی کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دے گی۔اب امریکہ نے بھی زمینی حقائق کو قبول کرلیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ چھ ماہ میں طالبان کابل پر قبضہ کر سکتے ہیں بھارت کو اس صورتحال میں اپنے لیے ناکامی دکھائی دیتی ہے۔ پہلے خود بھارت نے کابل انتظامیہ کو اسلحہ اور گولہ بارود بھیجا اور پھر امریکہ کو چین کے حوالے سے خبردار کر کے بمباری پر اُکسایا۔عجیب بات ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کیلئے ایندھن بھارت ڈال رہا ہے، مگر کابل انتظامیہ الزام پاکستان پر لگاتی ہے۔بھارت کی یہ پالیسی پرانی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری کو اس حوالے سے نہ صرف پوری آگاہی دی جائے بلکہ ان کو آمادہ کیا جائے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت کا کردار امن کے منافی ہے اس لئے عالمی اداروں کی طرف سے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور بھارت کا راستہ روکنا نہ صرف جنوبی ایشیا کے امن کے لئے ضروری ہے بلکہ پوری دنیا میں اگرجنگ و جدل سے بچنا ہے تو اس کے لئے بھارت اور اس کے ہم خیال ممالک کا راستہ روکنا ہوگا۔