آزاد کشمیر الیکشن سے حاصل ایک سبق۔۔۔

آزاد کشمیر کے انتخابات مکمل ہو گئے، مروجہ قوانین کے تحت تحریک انصاف نے براہ راست 25نشستیں جیت کر حکومت سازی کا حق حاصل کرلیا ہے، حاصل شدہ نشستوں کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی 11اور پاکستان مسلم لیگ نون 6نشستوں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں لیکن آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے جو انتخابی اعداد و شمار پیش کیے، ان سے ایک بار پھر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مجموعی طور پر زیادہ ووٹ لینے والی پارٹیاں، کم نشستوں پر جیت سکی ہیں، بلکہ اکثر کوئی نشست نہیں جیت پائیں، جبکہ کم ووٹ لینے والی پارٹیوں کوزیادہ نشستیں مل گئیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف نے مجموعی طور پر6 لاکھ،73ہزار،9سو 13 ووٹ حاصل کیے، جو کہ ڈالے گئے ووٹوں کا 32.2فیصد ہے،ان کے بدلے تحریک انصاف کو 25سیٹیں ملی ہیں جبکہ مسلم لیگ نون نے 5لاکھ6ہزار، 8سو 60ووٹ حاصل کیے، جو تناسب کے حساب سے 25.4فیصد ہے، مگر اس کو صرف چھ نشستیں ملی ہیں، اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کو مجموعی طور پر 3لاکھ، 45ہزار، 9سو 60حاصل کیے جو 17.3فیصد بنتا ہے، مگر حیران کن طور پر پیپلز پارٹی کو 11نشستیں مل گئی ہیں جب کہ جموں کشمیر پیپلز پارٹی نے 36ہزار آٹھ سو پچپن ووٹ لیے اور ان کو ایک سیٹ مل گئی۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے جماعت اسلامی نے بہت کم ووٹ حاصل کیے، جو 28ہزار، 9سو، 89ہیں، آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کی شاخ شروع دن سے فعال ہے،  اور تقریبا ہر اسمبلی میں نمائندگی حاصل کرتی رہی ہے، یہ شاید پہلا موقع ہے کہ براہ راست انتخابات میں کوئی سیٹ حاصل نہ کر سکی، ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہونے والے جماعت اسلامی کے سابق امیر، عبدالرشید ترابی مخصوص سیٹ حاصل کرلیں، لیکن ان کو جماعت اسلامی سے ہی نکال دیا گیا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کی بانی جماعت مسلم کانفرنس بھی سکڑ گئی ہے اور انتخابات میں 1لاکھ 54ہزار ووٹ لے کر اپنا وجود ثابت کیا ہے، لیکن اسے ایک ہی نشست مل سکی۔ انتخابات میں یہ ضرور ہوا کہ چار سابق وزیر اعظم، راجہ فاروق حیدر، بیرسٹر سلطان محمود، سردار یعقوب اور سردار عتیق الرحمن اپنی سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہے اور پیپلز پارٹی کے دو سابق وزرائے اعظم، راجہ ممتاز راٹھور اور چوہدری عبدالمجید کے بیٹے بھی جیت گئے۔ اگرچہ انتخابی نتائج توقعات کے مطابق ہی آئے ہیں اور الیکشن ہارنے والے امیدواروں نے انتخابی نتائج کو قبول بھی کرلیا ہے، کسی جگہ سے دھاندلی کی شکایت بھی نہیں آئی، البتہ لڑائی جھگڑوں کے واقعات میں تحریک انصاف کے دو کارکن جان سے گئے۔مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی قیادت البتہ دھاندلی کے الزامات لگا کر اپنی شکست کو دھندلا رہی ہے، لیکن یہ ایک رسمی بیان بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔نتائج کو عملی طور پر سب نے قبول کر لیا ہے۔لیکن یہ سوال ایک بار پھر سامنے آیا ہے کہ کیا ہمارا انتخابی نظام اور قانون جمہوریت اور عوام کی حقیقی نمائندگی کی ضرورت پوری کرتا ہے؟ اور کیا اسمبلی میں پہنچنے والا ہی حلقے کے عوام کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے؟  اور کیا حکومت بنانے والی پارٹی ملک، ریاست یا صوبے کے عوام کی نمائندہ ہوتی ہے. بدقسمتی سے الیکشن کمیشن کے اپنے ہی اعداد و شمار اس کی نفی کرتے ہیں۔اس وقت ملک میں انتخابی اصلاحات کی باتیں بھی چل رہی ہیں۔حکومت نے کچھ انتخابی قوانین منظور کیے تھے، جن کو اپوزیشن تسلیم کرنے کو تیار نہیں، اور حکومت نے بھی اپوزیشن کو دعوت دے رکھی ہے کہ آئیں مل کر انتخابی قوانین بنائیں، جن کے بعد کسی کو نتائج قبول کرنے میں مشکل نہ ہو، اور نہ ہی دھاندلی کا الزام لگایا جا سکے لیکن حکومتی اور اپوزیشن کی تجاویز میں کسی سطح پر بھی متناسب نمائندگی کی شق شامل نہیں۔جس کے مطابق سیاسی جماعت کو اس کے کل حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے اسمبلی کی نشستیں مل جائیں۔سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ انتخابی اصلاحات کے ذریعے ایسی تبدیلی لائیں، جس سے حقیقی جمہوریت مستحکم ہو اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ اس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں پر مشترکہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ اتفاق رائے اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔