برصغیر میں مون سون کا موسم، جو بکرمی تقویم میں ساون کے مہینے سے موسوم ہے، ایک بھرپور بارشوں کا حوالہ ہوتا ہے، گزرے وقتوں میں ساون کی بارشوں کے پانی کو چھوٹے ڈیم یا گاؤں کے قریب تالاب بنا کر محفوظ کیا جاتا تھا، جو مویشیوں کو پلانے کے کام آتا تھا، برساتی نالے اور ندیاں آبپاشی کیلئے استعمال ہوتے۔ چونکہ بارش کے پانی کی نکاسی کے راستے کھلے ہوتے تھے، اس لیے کبھی بستیاں ڈوبنے یا گھروں میں پانی داخل ہونے کی نوبت نہیں آتی تھی، مگر شہری آبادیوں میں اضافہ، انتظامیہ کی غفلت اور لوگوں کی لالچ میں برساتی پانی کے قدرتی اور فطری راستوں پر مکانات اور کمرشل عمارات تعمیر ہوگئیں اور ندی نالے بند یا بہت تنگ ہو گئے، رہی سہی کسر ہماری اجتماعی غیر ذمہ داری اور ان نالوں میں کچرہ اور پلاسٹک کے تھیلوں میں کوٹہ کرکٹ بھر کر پھینکنے سے پوری ہوئی اور پانی کی گزرگاہیں بند ہوگئیں، لیکن بارش کے پانی نے تو آسمان سے اترنا ہے، زمین پر جمع ہونا ہے، جب ہم اس کی نکاسی روک دیں گے تو آبادیوں میں گھس جائے گا اور گھروں میں داخل ہوجائے گا۔ ہر سال مون سون کے موسم میں، کسی نہ کسی شہر میں بارشی پانی عذاب کی کیفیت پیدا کرتا ہے، اگر گزشتہ چند سالوں کو سامنے رکھیں تو پشاور، لاہور اور راولپنڈی جیسے قدیم شہروں میں سینکڑوں گھروں میں پانی داخل ہو کر جانی و مالی نقصان کا باعث بنا، ہر سال موسم برسات آنے سے پہلے قدیمی نالوں کو صاف کرنے کے اعلان ہوتے ہیں، کروڑوں روپے کے فنڈز مختص ہوتے ہیں، مگر بارش ہوتے ہی انتظامیہ کی غفلت میں سب کچھ بہہ جاتا ہے، قدیم شہروں میں پھر بھی مشکل محل وقوع اور گنجان آبادیوں کو جواز بنا کر انتظامی ناکامی پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے، مگر گزشتہ سال کراچی کی ایک جدید اور کشادہ ہاسنگ سوسائٹی میں اتنا پانی داخل ہوا کہ کئی دن گھر پانی میں ڈوبے رہے، یہ حیران کن صورتحال تھی، کیونکہ مذکورہ سوسائٹی کراچی کی مہنگی ترین بستی ہے اور بڑے بڑے گھر بنے ہوئے۔ اس سال اسلام آباد کے ایک جدید اور پوش سیکٹر میں اسی طرح پانی کا ریلا آیا، جس نے تباہی مچا دی ہے۔ یہ سیکٹر مارگلہ کے قریب ہونے کے باعث بہت مہنگا ہے، یہاں چند سالوں میں بڑے اچھے گھر اور ملٹی سٹوری عمارات تعمیر ہوئی ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ابھی 120 ملی میٹر بارش ہوئی ہے، جبکہ مزید بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے، لیکن اتنا سیلاب آیا کہ بڑی گاڑیاں بھی بہہ گئیں، گھروں میں پانی چلا گیا ایک خاتون اور دو بچے بھی ڈوب کر جاں بحق ہو گئے، کروڑوں روپے کی املاک اور گھریلو سامان تباہ ہوگیا، شہریوں کا الزام ہے کہ انتظامیہ نے بارشوں کی پیشگوئی کے باوجود کوئی حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے، لیکن ان حالات میں انتظامیہ شاید کچھ کر نہیں سکتی تھی، اس کا کام مکانات اور عمارات کی تعمیر کے وقت پانی کی نکاسی کے راستے کھلے رکھنا اور روڈ کے لیول کو درست رکھنا تھا، لیکن اس وقت کسی نے ذمہ داری پوری نہیں کی، اور اب تو جو کرنا ہے، وہ پانی نے ہی کرنا ہے، جہاں نشیب ہوگا، وہاں پانی تو جائے گا۔ اسلام آباد کے شمال مغرب میں واقع ای الیون سیکٹر میں بارشی پانی سے یہ تباہی آئی، امدادی کاروائیوں کیلئے آئے ہوئے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر نے اس موقع پر کہا ہے کہ یہ صورتحال سوسائٹی کی جانب سے تجاوزات بنانے پر پیدا ہوئی، انہوں نے متاثرین کو یقین دہانی بھی کروائی کہ جن کی گاڑیاں تباہ ہوئی ہیں ان کے نقصان کا ازالہ کیا جائیگا۔یہ سیلاب اور گھر ڈوبنا صرف ایک پہلو ہے اور یہ صورتحال صرف اسلام آباد تک محدود نہیں، کسی بھی شہر میں ایک دن 100 ملی میٹر بارش ہو جائے تو پانی کی نکاسی کے راستے بند ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ شہروں میں دوسرا اور مستقل عذاب پارکنگ کا بن چکا ہے، شہروں کے وسط میں بڑے بڑے شاپنگ مال بنائے جا رہے ہیں، جن کے نقشے منظور کرنے والے ضروری پارکنگ کیلئے جگہ کے بغیر منظوری دے رہے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ پارکنگ سڑکوں پر ہوتی ہے اور ٹریفک جام کی کیفیت بنی رہتی ہے۔ شہروں کی پلاننگ تو بہت ضروری ہے، مگر اس سے زیادہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے، جہاں شہری انتظامیہ اور ترقیاتی ادارے ناکام رہتے ہیں، اس نام نہاد ترقی کی صورت میں شہری کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔