وہ جو یار لوگوں کو مون سون کے بادلوں سے ہمیشہ یہی شکایت رہتی ہے کہ وہ چاروں او ر چھینٹے اڑاتے پھرتے ہیں مگر پشاور کے حصے کے آسمان پر کبھی دل کھول کر برستے نہیں ہیں ان کی یہ شکایت جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات ساون رت کی بارش نے بڑی حد تک ختم کر دی ہے، جب رات کوئی تین بجے کے آس پاس شروع ہونے والی بوندا باندی اور ہلکی پھوار نے جلد ہی ایسی موسلا دھار بارش کا روپ دھارا کہ دیکھتے ہی دیکھتے جل تھل کو گویا ایک کر دیا بلکہ پشاور کے بہت سے نشیبی علاقے اور بیشتر گھروں کے آنگن پانی سے بھر گئے، میں نے کبھی کہا تھا
مرے آنگن میں دریا آن پہنچا
صدائے تشنگی مہنگی پڑی ہے
سو یہ منظر گزشتہ شب بہت سے گھروں اور گلی گلیاروں میں دیکھا گیا، بہت سی گلیاں مسلسل برسنے والی تیز بارش کے باعث ندیوں میں بدل گئی تھیں وہ تو بھلا ہوا کہ یہ نصف شب کے بعد کا عمل تھا اور یار لوگ چین کی نیند سوئے ہوئے تھے، آمد و رفت نہیں تھی تاہم جن کے آنگن میں پانی بغیر اجازت کے آ گیا تھا، ان کی بے چینی اس لئے بھی تھی کیونکہ اطراف سے ایسی خبریں مل رہی تھیں کہ بارشوں سے چڑھ جانے والے برساتی نالوں نے اپنے راستے میں آنے والی ساری بستیوں کو تاراج کر کے رکھ دیا ہے تسلسل سے برسنے والی انہی بارشوں نے پشاور میں واقع دو لیجنڈ فنکاروں یوسف خان اور پرتھوی راج کپور کی رہائشگاہوں کی بالائی منزلوں کو بہت نقصان پہنچایا،یوسف خان کا گھر تو پہلے ہی سے ضستہ حالت میں تھا تاہم پرتھوی راج کی تو حویلی تھی جو بہت عرصہ بعد بھی دیر تک اپنی عظمت رفتہ کی کہانی سناتی تھی اور ان دونوں مکانوں کو اپنے مکینوں کی شہرت کی وجہ سے بہت اہمیت حاصل تھی کپور فیملی تو کسی نہ کسی حوالے سے اب بھی اپنے ہونے کا حوالہ معتبر بنائے ہوئے ہے‘بارشوں سے ہونے والے نقصانات کی خبریں جہاں اخبارات اور نیوز چینلز پر مسلسل آرہی ہیں وہاں سوشل میڈیا پر بھی بہت سی خبریں، تصویریں اور وڈیوکلپس بھی وائرل ہو رہے ہیں، کیونکہ اب سیل فون ہر ایک کو دستیاب ہے اور وہ اپنے اپنے علاقے کی تصویری خبریں شیئر کرتے رہتے ہیں جو ظاہر ہے نیوز چینلز کے صاحبان اختیار کے لئے ممکن نہیں، ان موسموں میں مجھے پروفیسر اشرف بخاری کا ایک عمدہ شعر بھی بہت تنگ کرنے لگتا ہے خصوصا ًجب میں برساتی نالوں کے راستے میں تعمیر ہونے والی آبادیوں کو دیکھتا ہوں جن کو بارشوں اور طغیانیوں سے نقصان پہنچتا ہے
ہمارا حال ہے ان بستیوں کے لوگوں سا
جو بس گئے اسی ساحل پہ جو کٹاؤ میں ہے
مگر جب پانی بپھرتا ہے اور آپے سے باہر ہوجا تا ہے تو پھرپانی من مانی پر اتر آ تاہے اور پھر اس کے راستے میں کوئی بھی بند نہیں باندھا جاسکتا اور یہی وہ وقت ہو تا ہے جب مکینوں کے اجڑنے کے خیال سے بے نیاز وہ راستہ بدل بدل کر بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیتا ہے۔ اور کہنا پڑتا ہے کہ
بس اپنی دھن میں برستا ہے برسے جاتا ہے
اجڑنے والے دلوں کا خیال کم کم ہے
سو اس طرح کی دل دکھانے والے خبروں کے اداس دنوں میں میرے بہت ہی محبتی دوست اور طرحدار شاعر اعجاز نعمانی نے مجھے وٹس ایپ پر ایک اجڑے پجڑے سے ٹیلے کی تصویر بھیجی جس سے تند و تیز طغیانی گزر رہی تھی جو بظاہرمجھے ایک ہموار ڈھلوان سی لگ رہی تھی مگر اعجاز نعمانی کے میسج نے دل کاٹ کر رکھ دیا تھا۔”مظفر آباد پٹہکہ کا یہ وہ مقام ہے جہاں دو تین ہفتہ پہلے ہم نے اشمان اور وجیہ احمد کے ساتھ واٹر فال میں سہ پہر گزاری تھی ساتھ کے ریستوران سے کھانا کھایا تھا۔ آج اس ساری آبادی کا نام و نشاں بھی باقی نہیں رہا۔“ کتنی ہی دیر میں اس تصویر کو دیکھتا رہا وہاں گزاری ہوئی سہ پہراور شام آنکھوں میں پھرتی رہی، دیکھے ہوئے چہرے ہوں یا جگہیں جب باقی نہیں رہتے تو خون کے آنسو رلاتے ہیں، اس سے قبل جب سوات میں ”امن“ قائم ہونے کی خوشی میں تین دن کی شاندار تقریبات کا اہتمام ہوا تھا تو مشاعرہ اور موسیقی کے شو کی نظامت میرے ذمہ تھی۔ اسلام آبادسے حسن عباس رضا کی قیادت میں بہت ہی ممتاز اور قد آور شعرا ء شریک تھے، اسی طرح موسیقی ست جڑے بڑے فنکاروں کے ساتھ ساتھ پاپولر کرکٹر بھی مدعو تھے،ہمارا قیام دریا کے کنارے ایک بہت ہی خوبصورت ہوٹل میں تھا۔ تقریبات کے بعد دو ایک جاننے والوں نے اصرار کیا کہ ایک دو دن اور رک جائیں مگر میں نے معذرت کی کہ پھر کبھی آ جاؤں گا اب دوستوں کے ساتھ ہی جانا ضروری تھا، ہم سہ پہر کے آس پاس کالام سے روانہ ہو گئے تھے، اسی رات جب میں پشاور پہنچا تو معلوم ہوا کہ کالام میں طوفانی بارشیں شروع ہو گئی ہیں اور تیسرے دن پتا چلا کہ جہاں ہمارا قیام تھا اس ہوٹل سمیت جانے کتنے ہی ہوٹلوں اور دکانوں کی جگہ اب وہاں محض پتھر ہی پتھر ہیں، سب کچھ دریا برد ہو گیا تھا۔ یادش بخیر اسی طرح ایک بار دوست مہرباں میجر عامر کی دعوت پر جب اسلام آباد اور پشاور کے احباب دریا کنارے ایستادہ جادوئی نیسا پور میں ایک خوشگوار دن گزار کر شام ڈھلے واپس آنے لگے تو بوندا باندی شروع ہو گئی، کچھ احباب نے کہا جلدی کریں بارش سے پہلے نکل چلیں اور پھر سب اپنے اپنے رین بسیروں کی طرف چل پڑے، میرے ساتھ گاڑی میں دوست عزیز اور پریس کلب کے سابق صدر ممتاز صحافی سید ناصر حسین بھی تھے، پشاور پہنچتے پہنچتے بارش بہت تیز چکی تھی ناصر حسین نے ٹال پلازا کے قریب شکر ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ چلئے اب ہم پشاور پہنچ گئے، سب نے آمین کہا اور دوسری صبح معلوم ہوا کہ اس رات اس طوفانی بارش اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے موٹر وے پر کتنی ہی گاڑیاں پھنس گئی تھیں اور کتنی ہی سیلابی ریلے میں بہہ گئی تھیں کتنا جانی نقصان ہوا تھا اور اس بارش نے بھی کتنی ہی آبادیاں نگل لی تھیں، کتنے ہی لوگ اپنے پیاروں کی راہ تکتے ہی رہ گئے تھے۔ سہھنا رب سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔آمین۔۔خاور احمد یاد آ گئے۔
بستیوں کے کتنے لڑکے رہ گئے شہروں کے بیچ
راہ تکتی رہ گئیں پگڈنڈیاں بارش کی شام