مشکل انتخاب۔۔۔۔

مانٹریال ایک بانکا، نازک اور قدرے نسوانی سا خوش منظر شہر ہے کیونکہ یہ فرانسیسی ہے، جہاں ٹورنٹو ایک چھوٹا سا نیویارک انگریز ذہنیت کا شہر ہے، وہاں مانٹریال فرانس کی ثقافت کی نمائندگی کرتاہے، اس کے باشندوں کے لباس دیدہ زیب، سٹورز کی زیبائش میں ذوق جمال اور اس کی خواتین میں ذوق کمال ہے، البتہ یہاں کے ”مہاجر“یعنی پاکستانی اور ہندوستانی بدستور اپنے دیسی لباسوں میں، شلوارقمیضوں اور پگڑیوں میں ہر جانب شوخ رنگ بکھیرتے ہیں چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی شائستہ شروع سے ہی ایک نروس اور گھبرائی ہوئی سی لڑکی ہے، مجھے کوئی ایسا دن یاد نہیں جب وہ اطمینان اور سکون سے بیٹھی ہو، گھبرائی ہوئی اور خوفزدہ سی رہتی ہے، اسے دیکھ کر مجھے منیر نیازی کی یاد آتی ہے کہ جس شہر میں رہنا گھبرائے ہوئے رہنا، یعنی ایک سویر آپ اسے حسب معمول نہایت نروس اور بے چین سا دیکھتے ہیں، پوچھتے ہیں کہ شائستہ کیا ہوا؟ تو وہ کہے گی”بھائی جان، حادثہ ہو گیا، دو بندے موقع پر ہلاک ہو گئے، کچھ شدید زخمی ہیں، بھائی جان”آپ بھی گھبراجاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ حادثہ کہاں ہوا؟ تو وہ کہے گی”پتہ نہیں کہاں ہوا بھائی جان، میں نے ابھی ابھی ٹیلی ویژن پر خبر سنی ہے، شاید کوریا میں ہوا، پتہ نہیں زخمیوں کا کیا حال ہے ”سارے جہاں کا درد اگر کسی کے جگر میں ہے تو وہ صرف میری یہ بہن ہے، تو مانٹریال میں چند روزہ قیام کے دوران وہ حسب عادت نروس رہی، میرے آس پاس منڈلاتی رہی، بھائی جان میں آپ کیلئے گریپ فروٹ جوس لائی ہوں، ناشتے میں پراٹھے کھائیں گے یاانڈے، دوپہر کے کھانے کیلئے پیزاآرڈر کردوں، بھائی جان آپ کو بنڈیاں پسند ہیں، اگر نہیں پسند تو میں کیا کروں میں نے تو بنالی ہیں، غرض کہ اس نے میری جان عذاب میں ڈال دی۔
ذوالفقار مجھے اپنے سٹور میں لے گیا جہاں کچھ دیر میں نے اس کی جگہ گاہکوں کو بھگتایا، شیث اگرچہ ابھی ابھی ٹین ایج سے باہر آیا ہے لیکن وہ دنیا بھر کی کاروں کی ساخت اور انجنوں کی کارکردگی سے واقف ہے، مانٹریال یونیورسٹی میں پڑھائی کے علاوہ کاریں خرید کر انہیں ذرا مرمت کرکے فروخت کردینا اس کا مشغلہ ہے چنانچہ ہر روز یہ بھانجا مجھے ایک مختلف کار میں سیر کرواتے تھے۔اس شہر مانٹریال میں میری بیگم میمونہ کے درویش صفت بھائی احمد شفاعت ایک مدت سے مقیم ہیں، شفاعت نے آسٹریلیا سے فزکس اور حساب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ایک سائنسدان نے کہا تھاکہ یہ لڑکا نوبل انعام کبھی نہ کبھی حاصل کرلے گا، پھر شفاعت نے سائنس اور حساب کو یکدم ترک کردیا اور مذہب کی تحقیق میں اپنے آپ کو غرق کردیا، جب میمونہ کے بڑے بھائی مرحوم اسلم خان نے اس سے پوچھا کہ شفاعت سائنس اور حساب میں تم دنیا بھر میں جانے جارہے تھے اور برطانیہ اور امریکہ کی یونیورسٹیاں تمہیں لیکچرز کیلئے مدعو کرتی تھیں تو تم نے یکدم اس شعبے کو ترک کیوں کردیا توشفاعت نے کہا ”بھائی جان“ میں ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا تھا جہاں  اہم فیصلہ کرنا تھا کہ میں کسے اختیارکروں شفاعت کا کہنا ہے کہ جب وہ مانٹریال آیا تو وہاں صرف ایک مسجد تھی جو اکثر بند رہتی تھی اور اب پچاس سے زائد مساجد آباد ہیں، پچھلے دنوں مانٹریال کی جامع مسجد کے مصری امام وطن گئے تو شفاعت ان کی جگہ امامت کرتے رہے.... یہ تو ممکن نہیں کہ آپ کسی شہر میں جائیں اور وہاں آپ کی جورو کے بھائی مقیم ہوں اور آپ ان سے ملنے نہ جائیں‘ جورو سے جوتیاں کھانی ہیں کیا...تو ہم ملنے گئے... میرے ہمراہ شائستہ اور اس کا مختصر خاندان تھا...شفاعت کی مراکن اہلیہ اپنے عزیزوں سے ملنے کے لئے مراکو جاچکی تھی اور وہ کتابوں اور کمپیوٹرز میں گھرے”تنہا“ تھے میں نے شفاعت کی موجودگی میں ہمیشہ کچھ مجرم سا محسوس کیااگرچہ وہ کہتا تھا کہ بھائی جان اسلام کی تاریخ اور سیرت نبوی کے بارے میں آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کہ آپ نے”غار حرا میں ایک رات“ اور”منہ دل کعبے شریف“ لکھی ہے لیکن...یہ تو میں جانتا تھا کہ...میں کچھ نہیں جانتا‘ پچھلی بار میمونہ مانٹریال آئی اور اپنے اس گمشدہ بھائی کے گھر آئی تو بہت رنجیدہ ہوئی...“ وہ بہت اکیلے ہیں...اپنے فلیٹ میں...ان کی اہلیہ کام پر چلی جاتی ہیں اور میرا بھائی وہاں تنہا ہوتا ہے... آپ کو یاد ہے میری امی اپنے اس گمشدہ بیٹے کو مجھ سے خط لکھوایا کرتی تھیں اور پورا خط پنجابی شعروں میں ہوا کرتا تھا...ان کی وفات پر بھی وہ پاکستان نہ آئے...شفاعت کے بدن اور ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی‘ برسوں کی تحقیق مطالعہ اور کمپیوٹر کے ساتھ تنہائی اس کے اعصاب پر اثر انداز ہو رہی تھی وہ ان دنوں مانٹریال یونیورسٹی میں معلم بھی تھا۔