افغان میڈیا گروپ کا دورہ پاکستان۔۔۔۔

افغانستان کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک وفد نے، پاکستان کی اہم شخصیات سے ملاقاتوں میں، جہاں کھل کر اپنی قوم کے تحفظات اور ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا اظہار کیا، وہاں پاکستان کے وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف نے بھی کھل کر پاکستان کا قومی موقف بیان کیا۔دو دن پہلے وزیراعظم سے ہونے والی افغان میڈیا گروپ کی ملاقات، ٹی وی پر براہ راست دکھائی گئی تھی، جو اس بات کا بھی اظہار ہے کہ پاکستان کے پاس افغانستان کے حوالے سے کوئی چیز خفیہ نہیں۔ ویسے بھی آج کے دور میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی ملک کے خلاف خفیہ کاروائی کی جائے اور وہ دنیا کی نظروں سے اوجھل بھی رہے۔اسی لئے پاکستان نے حالیہ چند سالوں میں، جس طرح افغانستان کے ہر طبقے کیلئے قابل قبول حکومت کے قیام کیلئے سفارتی کوششیں کی، طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کیا اور ایک معاہدے تک پہنچنے میں سہولت کاری کی، یہ ایک شاندار کارنامہ ہے، اور دنیا کے غیر جانبدار ممالک اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ہاں البتہ بھارت اور افغان حکومت میں شامل کچھ لوگوں کو اس کا اعتراف کرنے میں دشواری ہوتی ہے، کیونکہ ان کا مفاد امن سے نہیں بلکہ انتشار سے ہے۔پاکستان کی کوششیں اپنی جگہ، لیکن طالبان سے مذاکرات کے دوران امریکہ کا مطمح نظر اپنی فوج نکالنا ہی رہا۔امریکہ نے افغانستان میں کسی سیاسی حل یا متفقہ حکومت کے قیام پر زیادہ توجہ ہی نہیں دی۔قطر میں طالبان سے مذاکرات کے دوران افغان صدارتی انتخابات کا انعقاد ایک غلط فیصلہ تھا۔اگر اس وقت تھوڑا انتظار کر لیا جاتا اور معاہدے کے بعد عبوری حکومت قائم کرکے اس کی نگرانی میں صدارتی انتخابات کرائے جاتے تو ممکن تھا کہ کوئی قابل قبول سیاسی تصفیہ ہو جاتا۔یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک حکومت کابل میں قائم ہے، جبکہ افغانستان کے 80 فیصد علاقوں میں اس کی عملداری نہیں ہے۔ اس کیفیت میں اگر طالبان کسی قابل ذکر مزاحمت کے بغیر اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں تو اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے۔ اس کے باوجود کابل پر حملہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔اس وقت بھی پاکستان ہر سطح پر کوشش کر رہا ہے کہ کابل میں پرامن طریقے سے انتقال اقتدار ہو۔کوئی ایسی قابل قبول عبوری حکومت قائم ہو، جس میں تمام افغان سیاسی دھڑوں کی نمائندگی ہو، اس کی نگرانی میں انتخابات ہوں اور اس طرح کی منتخب حکومت قائم ہوجس میں تمام افغان سیاسی دھڑوں کی نمائندگی ہو، اس مقصد کیلئے افغانستان کی مختلف سیاسی و مذہبی شخصیات کی میزبانی اور ان کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کر رہا ہے، لیکن افغان حکومت میں شامل کچھ لوگ بھارتی شہ اور مذموم مقاصد کیلئے پاکستان پر الزامات لگا کر ماحول کو پراگندہ کر رہے ہیں، بھارت کی طرح پاکستان کی طرف سے دراندازی کے الزامات سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ساری بھارتی سازش ہے، حالانکہ بھارت نے پاکستان کی رضامندی سے ہی ایل او سی پر مضبوط اور ناقابل عبور باڑ لگائی ہے، خود بھارت کا دعوی ہے کہ اب کوئی انسان کیا، پرندہ بھی غیرقانونی طور پر بھارت میں داخل نہیں ہو سکتا، مگر خود ہی کشمیر میں دراندازی کا الزام لگاتا ہے، پاکستان نے خود افغانستان کے ساتھ سرحد پر کثیر سرمائے سے باڑ تعمیر کی ہے، یہ دنیا کی مشکل ترین سرحد پر مضبوط ترین باڑ ہے، یہ 90 فیصد مکمل ہوچکی ہے، پاکستان کی طرف سے باڑ لگانے کا مطلب ہے کہ افغانستان کی طرف سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوکر تخریب کاری کرتے ہیں۔ افغان میڈیا گروپ میں ہر خطے اور قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی شامل ہیں، انہوں نے وزارت اطلاعات، وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں اور کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور پاکستان کی طرف سے ہر ممکن طریقے سے ان کی تشفی کے لیے ہر سوال کا جواب دیا گیا اور اپنی پوزیشن واضح کی، اب یہ صحافی خواتین و حضرات پر ہے کہ وہ کس طرح سچائی کو اپنے ذرائع سے افغان قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس وقت شدت سے اس بات کی ضرورت ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے عوام کے درمیان غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو، افغان شہری پاکستان کی میزبانی اور قربانیوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں، مگر کابل کی حد تک بھارتی پروپیگنڈے سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بات وزیر اعظم نے بھی کہی ہے کہ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے سے منسلک ہیں، افغانستان میں بدامنی اور انتشار کا سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اثر پاکستان پر پڑتا ہے، اب پاکستان نہ تو مزید افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھانے کو تیار ہے اور نہ ہی معاشی بوجھ برداشت کرسکتا ہے، اس لیے اب بھی طالبان کی کابل پر قبضہ کرنے کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ بات پاکستانی قیادت نے افغان میڈیا پرسنز کو بتا اور سمجھا تو دی ہے، اب یہ ان پر ہے کہ حقائق اپنی عوام کے سامنے رکھتے ہیں یا پہلے سے طے شدہ نتائج ہی دکھاتے ہیں۔