کورونا نے جو حملہ کیا تو اس سے محفوظ رہنے کی کوششیں بھی شروع ہو گئیں۔ پہلے تو کسی کو یہ خیال ہی نہیں تھا کہ کورونا بھی کوئی بیماری ہے اسی لئے کسی نے اس سے حفاظت کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ اب جو کورونا نے ملک کو اپنے قبضے میں لیا تو اب خیال آیا کہ اس سے بچنے کی تدابیر کی جائیں۔ گودیر سے مگر پھر بھی بہتر یہی ہے کہ اس سے بچنے کی ہی کوشش کی جائے۔ جو لوگ اس کے حملے کا شکار ہو چکے ہیں وہ تو ہوہی چکے ہیں مگر اب بھی یہی کوشش ہے کہ اس سے بچنے کی ہی کوشش کی جائے۔ تو ہر ہفتے عشرے کے بعد کسی نہ کسی علاقے کو کورونا سے بچنے کیلئے بند کر دیا جاتا ہے۔ اس سے بچت کا یہی ایک طریقہ ہے کہ خود کو بند ہی کر دیا جائے۔ مگر کیا کیاجائے کہ انسانی ضروریات کی حالت کچھ ایسی ہے کہ انسان کو ضرور بازار تک تو جانا ہی پڑتا ہے۔ اور یہ اس بیماری کے حملے کا موجب بن جاتا ہے۔ اب ایک ایسی بیماری کی جس کا علاج ابھی تک معلوم نہ کیاجا سکا ہو اس کیلئے بچاؤ ہی ایک قابل عمل طریقہ یہی رہ جاتا ہے۔ مگر اس میں بھی صورت حال یہ ہے کہ ہم نے اپنی ضروریا ت اتنی بڑھا دی ہیں کہ ہمیں ان کو پورا کرنے کیلئے ضرور بازار کا رخ کرنا پڑتا ہے اور بازا ر جانا ہی اس بیماری کے حملے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اب اتنی احتیاط تو ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان خود کومستقل قرنطینہ ہی کر لے۔ ضرویات زندگی کیلئے باہر تو نکلنا ہی پڑتا ہے اور اگر باہر نکلتے ہیں تو کوروناکہیں نہ کہیں ہم پر حملے کیلئے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ابھی تک اس سے نجات کا کوئی طریقہ نہیں نکل سکا علاقہ اس کے یا تو ویکسین نیشن پوری کر لی جائے اور اگر وہ نہ ہو تو پھر فاصلہ رکھا جائے۔ یعنی اب کچھ اس کا پرہیزی علاج کچھ اس صورت میں نکلا ہے کہ بیماری کے بچاؤ کی ویکسین لگائی جائے۔ اس کیلئے پہلے تو لوگ تیار نہیں تھے مگر جب کورونا نے اپنے دانت دکھائے تو سب کو اسکے بچاؤ کا سامان کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جہاں جہاں اس کے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں وہاں اتنا زیادہ رش ہے کہ خود معالج کم پڑ گئے ہیں۔ سب سے پہلے جو لوگ اس مرض کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے وہ ہمارے معالج ہی تھے۔نہیں کہاجا سکتا کہ ایسا کیوں ہوا اس لئے کہ معالج تو ا سکے مضرات سے
پوری طرح واقف تھے مگر پھر بھی ہمارے صوبہ میں اس کا پہلے شکار ہمارے معالج ہی تھے اور ہمارے کئی معالج ہی سب سے پہلے اس بیماری کی وجہ سے جان کی بازی ہارے۔ اب تو س کے بچاؤ کیلئے عوام کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ جونہی کوئی شخص اس کا شکار ہوتاہے وہ فوری طور پر قرنطینہ کر لیتا ہے اور س کی وجہ سے اس کی جان بچ جاتی ہے،ایسے حالا ت کہ جب ویکسی نیشن کا عمل شروع ہے تو پھر سب کی ذمہ داری ہے وہ ویکسین لگائے تاہم اس دوران نہ صرف ایس اوپیز کابھی خیال رکھے اور جہاں ویکسی نیشن ہوتی ہے وہاں بھی ایس اوپیز پر عملدرآمد ضروری ہے، کیونکہ میڈیا میں آنے والی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے مقامات پر ویکسی نیشن کے دوران عوام نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا اور ایس اوپیز کی پابندی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس رویے سے نقصان ہی نقصان ہے جس سے گریز ضروری ہے۔