ہم آہنگی کی ضرورت 

 پارلیمانی جمہوریت میں اگر یہ ممکن ہے کہ مجموعی ووٹوں کے تناسب سے اسمبلی میں نشستیں نہیں ملتیں، وہاں وفاقی اور وفاقی اکائیوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہونا بھی ممکن ہے، ہمارے ملک میں کئی بار ایسا تلخ تجربہ ہو چکا ہے، جب وفاق میں ایک پارٹی اور پنجاب، سندھ یا دوسرے صوبوں میں مخالف سیاسی جماعت کی حکومت بنی، ہونا تو یہ چاہئے کہ سیاسی اخلاقیات کے تحت ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے اور وفاق و صوبوں کے درمیان تعلقات کار میں کوئی مشکل پیدا نہ ہو، لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا، باریک آئینی نکات کی بنیاد پر آئے روز تنازعات اٹھتے رہتے ہیں اور آپس میں تعلقات خوشگوار نہیں رہتے۔معمولی قسم کے اختلافات جمہوری نظام میں عام سی بات ہے۔تاہم کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر متفقہ لائحہ عمل ہی فائدہ مند ہوتا ہے۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان کورونا کے پھیلا کے باعث لاک ڈاؤن پر پیدا ہونے والا تنازعہ پہلا ہے نہ ہی یہ کوئی نئی بات ہے، امید ہے ماضی کی طرح چند دن میں اتفاق رائے ہو جائے گا۔یہاں یہ غلط روش چل پڑی ہے کہ صوبائی حکومت کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ صوبے میں ہر محرومی کا ذمہ دار وفاق کو ٹھہرایا جائے اور اس مقصد کیلئے تیز بیان بازی ضروری سمجھی جاتی ہے، جہاں تک کورونا میں تیزی کا سوال ہے تو ایک بار پھر خطرناک رفتار سے پھیل رہا ہے۔حالیہ لہر در اصل بے احتیاطی اور ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے، مکمل لاک ڈاؤن کا تجربہ بھی تکلیف دہ ہے اور کچھ ایسے شعبے ہیں کہ جہاں لازمی طور پر معمولات کو جاری رکھنا ہی پڑتا ہے ایسے میں کورونا ایس او پیز پر عمل کے ذریعے ہی حالات کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت تو صرف بڑے شہروں میں ہی کسی حد تک بندش لگاتی ہے، چھوٹے شہروں اور دیہات میں یہ بھی نہیں ہوسکتا۔سیاسی اختلافات سے ہٹ کر اب کورونا کا معاملہ خالص تکنیکی اور طبی ہے۔ اس پر حکمت عملی طے کرنے کیلئے وزارت صحت کے حکام اور طبی ماہرین کے درمیان مشاورت اور حفاظتی اقدامات کی سفارشات پیش ہونا چاہئیں جن پر حکومت عمل کرائے۔اگر ماضی سے موازنہ کیا جائے تو موجودہ وفاقی حکومت زیادہ صبر اور وسیع قلبی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور زیادہ تر معاملات میں صوبوں کے موقف کو تسلیم بھی کر لیتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مقصد دونوں کا ایک ہی ہے، وفاقی حکومت بھی چاہتی ہے کہ کورونا بے قابو نہ ہو اور بھارت جیسے حالات سے دوچار نہ ہونا پڑے اور سندھ حکومت بھی یقینا نہیں چاہتی کہ کورونا سے ہلاکتوں میں اس قدر اضافہ ہو کہ حالات قابو سے باہر نہ ہوجائیں۔تاہم دونوں کے درمیان طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ وفاق کے ساتھ بیانات کی چاندماری اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ چلتی رہتی ہے  اور یہ کوئی اتنی پریشانی کی بات نہیں، پریشانی کی بات یہ ہے کہ کورونا سے متعلق قواعد وضوابط پر سختی کے ساتھ عمل درآمد نہیں ہورہا جس کا نقصان سراسر عوام کو ہوتا ہے اور اس میں دیکھا جائے تو عوام کا قصور بھی ہے کہ وہ پہلے تو ویکسی نیشن سے گریز کرتے رہے اور یعنی پہلے تو ویکسی نیشن پرتوجہ نہیں دی ویکسین لگانے کے دوران بھی ایس او پیز پر عمل نہیں ہورہا۔سچی بات ہے کہ جب تک عوام کو خود اپنے مفاد کا شعور نہیں آئے گا، اس وقت تک کوئی بھی حکومت ان کا خیال نہیں رکھ سکے گی۔