سیاست میں بیان اور بیانیہ ۔۔۔۔

سیاست میں بیان بازی کی اہمیت آکسیجن کی طرح ہوتی ہے۔پارٹی ورکروں کو متحرک اور سرگرم رکھنے کیلئے تند وتیز بیان جاری کرنا اور ان کو میڈیا میں درست کوریج دلوانا ایک اہم کام سمجھا جاتا ہے۔اس مقصد کے لیے ہر سیاسی جماعت میں ایک پورا شعبہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔پارٹی میں قیادت کمزور بھی چل جاتی ہے، مگر میڈیا سیل مضبوط ہونا لازمی ہے، اکثراوقات پارٹی قیادت کو پتہ ہی نہیں ہوتا، مگر شعبہ اطلاعات حسب ضرورت بیان جاری کرتا رہتا ہے۔ سیاسی قائدین کی براہ راست صحافیوں سے بات چیت بھی بیان ہی کی  صورت میں میڈیا میں جگہ پاتی ہے مگر کئی بار ایسا ہوا ہے کہ پارٹی لیڈر کی گفتگو براہ راست نشر ہونے کے بعد، پارٹی کے شعبہ اطلاعات کو اس کی  وضاحت بھی کرنا پڑی اور متعدد بار یہ بھی ہوا کہ میڈیا سیل کو اپنے تعلقات اور ذرائع کی مدد سے پارٹی کے لیڈر کی گفتگو شائع یا نشر ہونے سے رکوانا بھی پڑی۔ اس لئے کہ سیاستدان کا بیان پارٹی کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن موجودہ دور میں  جب کہ انتخابات میں لہجہ اور پینترا بدل لینا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں بیان سے زیادہ "بیانیہ" کا ذکر اور بار بار ذکر عجیب قسم کی سیاسی کنفیوژن کا موجب ہے اور یہ عام شہریوں سے زیادہ پارٹی رہنماؤں اور ورکروں کیلئے ذہنی خلفشار کا باعث بن جاتا ہے۔بیانیہ دراصل کسی اصول اور نظریے پر ڈٹ جانے اور پختہ کاری کا نام ہے،۔پاکستان میں اگرچہ کثیر جماعتی سیاسی نظام ہے، مگر عملی طور پر دو جماعتی نظام ہی چلا آ رہا ہے۔ان میں سے ایک دائیں بازو کی نمائندہ، جبکہ دوسری آزاد خیال اور بائیں بازو کی حامل رہی۔مشرقی پاکستان سانحے سے قبل تو مسلم لیگ ہی کی مختلف شاخیں مدمقابل رہیں۔بعد ازاں منظر نامے کو دیکھا جائے توپیپلز پارٹی بائیں بازو کی جماعت تھی،  لیکن پارٹی کا اصل سرمایہ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی جادوئی شخصیت تھی، جس کی کشش آج بھی موجود ہے‘ مارشل لا کے گیارہ سال گزارنے کے بعد بھی سیاست میں بھٹو اور اینٹی بھٹو فیکٹرز کے درمیان مقابلہ رہا اور پیپلز پارٹی ایک نظریاتی پارٹی کے طور پر چلتی رہی جبکہ اینٹی پیپلز پارٹی قوتوں کو لے کر چلنے والے نواز شریف   مقابلے میں موجود رہے کئی مرتبہ دونوں جماعتیں حکومت میں آتی رہیں اور اس دوران جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ ایک تاریخ ہے، اب  حالیہ آزاد کشمیر الیکشن اور فوری بعد سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی شکست سے پارٹی کے اندر ایک بار پھر بیانیہ اور بیان کا مسئلہ زیر بحث ہے۔اب اس بات کے امکانات پیدا ہوئے ہیں کہ حکومت اور بطور اپوزیشن لیڈر، شہباز شریف کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری اور چند ماہ بعد چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان با معنی مشاورت کا آئینی تقاضا بھی پورا کرنا ہے، اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شہباز شریف اپنی حد تک پارلیمنٹ کے اندر مفاہمت کا بیانیہ اُجاگر کریں گے البتہ ابھی تک مریم نواز اور ان کے چند مشیر مزاحمت پر زور دے رہے ہیں یہ سیاسی جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ قومی سیاسی ماحول  میں مفاہمت کو کیوں جگہ نہیں مل رہی لیکن یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ عوامی سطح پر مفاہمت کا احساس ابھر رہا ہے اور سیاسی قیادت کو بھی اس بات کا نوٹس لینا چاہیے اور نظام کو چلانے کے لیے مفاہمتی سیاست کرنی چاہئے۔اس وقت آثار ایسے نظر آنے لگے ہیں کہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان کم از کم پارلیمنٹ کی حد تک مفاہمتی سیاست سامنے آئے اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کا فائدہ ہے کہ وہ آنے والے انتخابات پر توجہ مرکوز رکھیں اور اس حوالے سے اپنے منشور اور ایجنڈے کو عوام کے سامنے لائیں۔