یوں تو ہر حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ غربت کا خاتمہ اور بچوں کے ہاتھ میں کتاب دیں گے مگر اس پر عمل کون کرے گا‘ ادھر وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملک کو خود مختار بنانے کے لئے غربت کی کمی اور ملکی آمدنی میں اضافے کے لئے ہر ممکن قدم اْٹھائیں گے۔ گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے نچلے طبقے کے لئے وژن پاکستان پروگرام کا اعلان کیا ہے جس کے تحت غریب خاندان کے ایک فرد کو ٹیکنیکل ایجوکیشن دی جائے گی جب کہ غریبوں اور چھوٹے کسانوں کو بغیر سود کے قرضے بھی فراہم کئے جائیں گے‘ انہوں نے کہاکہ حکومت غربت کے خاتمے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کرے گی‘ دریں اثناء وفاقی وزیر مراد سعید نے بھی گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں کسی نے غریبوں کا نہیں سوچا،ہم کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت 10ہزار نوجوانوں کو قرضہ دے چکے ہیں،ہر مہینے کامیابی کی نئی کہانیاں سامنے آرہی ہیں، پاکستان کا نوجوان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو رہا ہیکوئی بھی اقدام اگر اٹھایا جاتا ہے تو وہ آبادی کو دیکھ کر اٹھایا جاتا ہے مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر ایک علاقے کے لئے ایک منصوبہ بنایا جاتا ہے تو وہ ایک خاص آبادی کے لئے ہوتا ہے مگر جب منصوبے پر عمل درآمد کا وقت آتا ہے تو علاقے کی آبادی پہلے سے بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور منصوبہ اُس آبادی کے لئے تقریباً بے فائدہ ہو چکا ہوتا ہے۔ا گر ایک منصوبہ سو افرادکی آبادی کے لئے بنتا ہے تو اس پر عمل درآمدکرتے وقت تک آبادی دگنا ہو چکی ہوتی ہے اور منصو بہ بے کار ہو جاتاہے۔ ایک منصوبے کے بننے اور اس پر عمل درآمد کرنے میں وقت لگ جاتا ہے اور اس وقت میں آبادی میں تو اضافہ ہوتا ہی رہتا ہے اس لئے جب عمل درآمد کا وقت آتا ہے تو جو آبادی منصوبہ بناتے وقت اگر سو افراد پر مشتمل تھی تو اس پر عمل درآمد کے وقت تک آبادی دو سو ا فٖراد پر مشتمل ہو جاتی ہے۔ اس لئے جو منصوبہ بنایا جاتا ہے وہ بے کار ہو جاتا ہے۔حکومتیں صحیح طرح سے منصوبہ بندی نہیں کر پاتیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آبادی توبڑھتی جاتی ہے مگر ذرائع آمدن میں اضافہ نہیں ہو پاتا جس سے ملک میں غربت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس اضافے کی ذمہ دری بھی حکومت کے سر پڑ جاتی ہے۔ اور جب آبادی میں اضافہ بے قابو ہو جائے تو اس کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے اور حکومتوں کو اس آبادی کوضروریات زندگی فراہم کرنے کے لئے دیگرممالک سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ دنیاکے غریب ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ وہاں آبادی میں تو اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر ذرائع آمدن میں اضافہ نہیں ہو پاتا۔ نتیجتاً غربت میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ آبادی کا اضافہ در اصل ذرائع آمدن پر اثر انداز ہوتا ہے اور جہاں تک ذرائع آمدن کا تعلق ہے تو اکنامکس کا اصول ہے کہ آبادی تو جیومیڑیکل سیریز کے حساب سے بڑھتی ہے جب کہ آمدن کے ذرائع حسابی سیریز کے حساب سے بڑھتے ہیں اس لئے آبادی آمدن سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جس سے ملکوں میں غربت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آبادی میں اضافے سے زمین میں اضافہ نہیں ہوتا ا س لئے پیداوار بھی اس طرح نہیں بڑھ سکتی کہ جس طرح سے آبادی بڑھتی ہے اس لئے آبادی کا اضافہ صرف غربت میں ہی اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہم آبادی کی ضروریات بھی پوری کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو نتیجہ ظاہر ہے کہ غربت میں اضافہ ہی ہو گا اور غربت حکومتوں میں افرا تفری کو جنم دیتی ہے اور یہ غربت ہی ہے کہ جو بچوں کے ہاتھ سے قلم چھین لیتی ہے۔ قلم اور کتاب کا انسان کی آمدن سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جب آمدن میں اضافہ ہو تو قلم اور کتاب کا رشتہ بھی انسان سے استوار ہو جاتا ہے اور آمدن نہ ہو تو قلم کتاب بھی انسان کے ہاتھ سے چھن جاتے ہیں۔