زندگی میں بہت سے ایسے کردار وں سے واسطہ پڑتا ہے جن سے ملاقات چند لمحوں کی ہوتی ہے مگر وہ دیر تک یاد رہتے ہیں یا پھر خواہی نخواہی تنہائیوں میں در آ تے ہیں اور دیر تک پھر سرشار رکھتے ہیں،ستر کی دہائی کے اوائل میں جب میں اسلام آباد میں تھا تو شام کو آب پارہ میں کچھ دیر گھومنے کے بعد میں اور مرے دوست چودھری جمیل اور خالد گل روز اینڈ جیسمن گارڈن جا کر رات گئے تک نرم سبزہ زار میں بیٹھ کر آنے والے دنوں کیلئے دیکھے گئے خواب ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے،چودھری جمیل کا مستقبل تو خیر واضح تھا کہ آب پارہ میں اس وقت دو بڑی بیکریوں میں سے ایک ان کی تھی وہ دو بھائی تھے اورتعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کے بھائی نے بیکری جمیل کے حوالے کر کے اپنے گاؤں چلے جانا تھا،خالد گل کے خوابوں کا مرکز جانے انجانے جزیروں کی طرف پرواز کرنا تھا،ہماری گفتگو میں اس وقت تعطل پیدا ہو جاتا جب اسلام آباد کے آسمان پر کسی گزرنے والے جہاز کی آواز آتی تو خالد کہتا بس ایسا ہی ایک جہاز آئے گا اورمیں آپ دوستوں سے دور بہت دور چلا جاؤں گا، اور پھر سارے خواب ایک طرف رکھ کر وہ اپنی خوبصورت آواز کا جادو جگاتا ”میگھا چھائے آدھی رات، بیرن بن گئی نندیا۔ بتا دے میں کیا کروں“ اور باغ میں ادھر ادھر بیٹھے یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیاں چپکے سے ہمارے قریب ہی بیٹھ جاتے، باغ رات گیارہ بجے بند ہو جاتا سب چلے جاتے مگر چوکیدار ہمیں اکثر اپنے لئے بنائی ہوئی چائے میں شریک کر لیتا وہاں سے نکل کر ہم تینوں باغ اور آب پارہ کے درمیان ایک درگاہ پر کچھ دیر رک جاتے جہاں کچھ اللہ والے سر جھکائے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوتے ہماری کبھی ان سے بات نہیں ہوئی مگر وہ ہمیں پہچان گئے تھے،، ایک بار ان میں سے ا یک بابا جی نے آنکھیں کھولے بغیر سر اٹھا کردور سے ہم پر کچھ پھونکا، پھر یہ روز کا معمول بن گیا تھا، ایک دن چودھری جمیل کا ایک مہمان ملک امانت بھی ہمارے ساتھ گارڈن گیا اور جب ہم آدھی رات کو اس مزار کے پاس سے گزرے تو بابا جی نے نہ سر اٹھایا نہ دم پھونکا، خالد گل نے مجھ سے کہا کہ یہ سب ملک امانت کی وجہ سے ہوا، میں نے کہا اس کا اندازہ ہمیں کل ہو گا اس رات عجیب عجیب خواب آتے رہے، دوسرے دن میں نے خالد سے ذکر کیا تو وہ کہنے لگے یہ میری آنکھیں دیکھو میں نے دیکھا تو بے خوابی سے ان میں لال ڈورے نظر آئے کہنے لگا میں تو ایک پل نہیں سویا۔ ہمیں شدت سے رات کا انتظار تھا،شام کے وقت حسب معمول ہو کر جمیل کی بیکری پر گئے اسے ساتھ لے جانے کی اجازت ہمیں اس شرط پر ملتی کہ تھوڑی دیر ہمیں اس کے حصے کا کام کر نا پڑتا میں چند لمحے کیش لینے پر خود کو مامور کر لیا کرتا تھا، خیر ہم گارڈن آئے، گپ شپ ہوئی خالدگل نے بہت ڈوب کر مکیش کا گیت سنایا، ”وہ ترے پیار کا غم اک بہانہ تھا صنم اپنی قسمت ہی کچھ ایسی تھی کہ دل ٹوٹ گیا“ مجھے یاد ہے اس کا چہرہ اس کے آنسوؤں سے تر بتر ہو گیا تھا،ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ آ ج ہمیں جلدی تھی چو کیدار سے چائے کیلئے معذرت کر کے ہم باغ سے نکل آئے اور اس درگاہ کے راستے پر ہو لئے وہاں پہنچ کر جیسے پاؤں سو سو من کے ہو گئے، جہاں وہ بابا جی بیٹھا کرتے تھے وہ جگہ خالی تھی، ہم بیرونی دیوار کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہم تینوں چپ تھے اپنی اپنی جگہ یہی سوچ رہے تھے کہیں ہم جلدی تو نہیں آ گئے۔مگر نہ صرف بہت دیر تک رکنے کے باوجود وہ نظر نہ آئے بلکہ اس کے بعد ہم میں سے کسی نے ان کو نہ دیکھا۔ جمیل نے ایک دن کہا کسی سے پوچھ نہ لیں، مگر کیا پوچھیں وہ کون تھا ہمارے تو اگروہ سامنے بھی آ جاتا تو ہم اسے پہچان نہ پاتے،اندھیرے میں بیٹھنے والے بابا جی کا تو کبھی چہرہ بھی نہیں دیکھا، ایک دن خالد نے کہا، ”یار زندگی میں کتنے ہی لوگ ہمیں ملتے ہیں جو اپنا وقتی کردار ادا کر کے چپکے سے نکل جاتے ہیں“ اس دن ہم نے ایسے کئی لوگوں کو یاد کیا جو ہمیں اپنی مختصر سی زندگی کے اس میلے میں مل کر بچھڑ گئے تھے ان میں اس بابا جی کے علاوہ بھی کچھ لوگ تھے اس دن خالد گل کو اپنے والد مرحوم کا اتنا ذکر کیا کہ ان کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ میں نے کہا یہ جو ان دنوں ہمارے ساتھ جڑے ہوئے لوگ ہیں آئیے ان سے بہت پیار کرتے ہیں تا کہ آنے والے دنوں میں ہمارے پاس رونے کیلئے کوئی خوبصورت بہانہ تو ہو۔ تب سے میں ان کرداروں کو بہت وقعت دیتا ہوں جو مختصر سے وقت کیلئے ملتے ہیں اور پھر ان سے ملنے کا امکان بھی نہیں ہو تا، مگر میری تنہائیاں ان سے آ باد رہتی ہیں،ان میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ شامل ہیں، جن سے بات کر کے کوئی نئی بات میں نے سیکھی ہے، ہاکر،پلمبر، الیکٹریشن سے لے کر سفر کے دوران ملنے والے ان گنت لوگ شامل ہیں، مجھے 1999 میں فینکس سے لاس اینجلس آتے ہوئے جہاز میں ملنے والی ایک طالبہ کبھی نہیں بھولتی جس نے اس وقت مجھے باتوں میں لگا کر میرا خوف ختم کر دیا تھا جب ہمارا چالیس سیٹر چھوٹا ساجہاز تھنڈر سٹارم میں پھنس کر ہچکولے کھا رہا تھا، اور کل میری ملاقات فضل سبحان نامی ایک شیشہ لگانے والے سے ہوئی، برخوردار مسعود نے اسے میری سٹڈی کی الماریوں کے شیشے لگانے بھیجا تھا، میں اسے کام کرتے دیکھ رہا تھا کہ کتنی مہارت سے وہ چپ چاپ شیشہ ناپتا تھا،پھر قلم سے سیدھی لائن لگا کر قلم ہی ایک ٹھو کا سا لگا کر اے الگ کرتا اور فریم میں لگا دیتا۔ شیشہ کا نازک کام دیکھ کر مجھے ہر گھڑی یہی خدشہ رہتا کچھ غلط نہ ہو جائے، معلوم نہیں اس نے کیسے میری سوچ پڑھ لی اچانک کام روک کر کہنے لگا، جناب میرا چالیس سال کا تجربہ ہے،اسی سانس میں یہ بھی کہا میں آج بہت خوش ہوں کہ کسی دانشور کے گھر کام کر رہا ہوں‘یہ غلط فہمی اسے چاروں اور بکھری کتابیں دیکھ کر ہوئی ہوگی‘پھر کہنے لگا میں ان پڑھ ہوں مگرمیں جانتا ہوں کہ ان کتابوں میں غزلیں اور قصے کہانیاں ہوں گے لیکن اگر میں نے اپنی کہانی سنائی اسے لکھتے لکھتے پوری عمر گزر جائے گی، پھر اس نے اپنے کہانی یہاں وہاں سے سنائی، کیسی کیسی مزدوری کر کے جب شیشہ کے کام میں آیا تو یہ نازک کام بہت ا چھا لگا، اب میرے بچے جوان ہیں چاہوں تو کام کاج چھوڑ کر گھر بیٹھ جاؤں مگر مجھے اپنے کام سے عشق ہے،اس کے چہرے کا اطمینان اس کی باتوں کی تائید کر رہا تھا،کچھ گھریلو زندگی کے اتار چڑھاؤ کا قصہ بھی تھا، سوچتا ہوں، کیا فضل سبحان کو میں کبھی بھول پاؤں گا، بس یہی یادیں ہی تو ہیں جوہمیں اکیلا نہیں ہونے دیتیں،فراق گورکھپوری نے کہا ہے۔
غرض کہ کاٹ دئیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں