اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ماضی، حال پر اپنا اثر ضرور چھوڑتا ہے۔اب ہم ہمسایہ ملک افغانستان کے حوالے سے دیکھیں تو آج ہم پورے خلوص کے ساتھ افغانستان کے مسائل سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، وہاں دیرپا امن کیلئے افغان عوام کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے، کسی بھی سیاسی یا عسکری گروپ کی حمایت بھی نہیں کر رہے مگر بد قسمتی سے جواب میں خیر سگالی اور شکریے کی بجائے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس دوران امریکہ نے بھی کئی پینتھرے بدلے۔ اس وقت یہ جو جنگجوامریکہ کے وائٹ ہاس میں بھی خاص مہمان ہوتے تھے اور امریکی صدر ریگن ان کو ”دنیا کے محسن“قرار دیتے تھے پھر انہیں کے خلاف ہوگیا۔جب1987 میں سوویت فوج واپس گئی تو امریکہ نے افغانستان کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈال کر اپنی راہ لی۔ اس کے نتیجے میں وہاں مسلح گروپ آپس میں لڑنے لگے پاکستان کے قبائلی علاقے ان عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں سے محفوظ نہ رہے اور جب 9/11 کا واقعہ ہوا تو اورامریکہ نے افغانستان پر فضائی حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو بھی پاکستان کو سراسر نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ امریکی حملے میں طالبان کو کابل چھوڑنا پڑا اور وہ ملک میں بکھر گئے، لیکن 20سال کی طویل جنگ میں وہ آہستہ آہستہ منظم بھی ہوتے گئے۔ستم ظریفی دیکھئے کہ کابل میں جو بھی حکومت اس دوران قائم ہوئی اس نے کبھی بھی پاکستان کیلئے خیر سگالی نہیں دکھائی اور ہمیشہ الزام ہی لگائے۔امریکہ اور نیٹو کی ڈیڑھ لاکھ فوج اور افغانستان کی سرکاری فوج مل کر بھی طالبان کو ختم نہیں کر سکے تو اس ناکامی کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہرایا گیا۔ 2018 میں امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان سے فوج نکالنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کی۔اب امریکہ سمیت غیر ملکی فوج نکل چکی ہے، لیکن کسی سیاسی تصفیہ کے نہ ہونے سے کابل پر سابقہ حکومت قابض ہے جبکہ طالبان اپنی پیش قدمی سے مختلف علاقوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔پاکستان نے اس مرحلے پر غیر جانبدار رہتے ہوئے طالبان سے بھی کہا ہے کہ وہ طاقت کا استعمال ترک کر دیں اور حکومت پر بھی زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل نکالے لیکن دن بدن حالات کشیدہ ہو رہے ہیں، افغان حکومت بھی بھارت اور امریکہ کی مدد سے لڑائی کر رہی ہے۔ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ ایک عبوری سیٹ اپ قائم کر کے انتخابات کرائے جائیں اور ان کے نتیجے میں پرامن انتقال اقتدار ہو اس وقت زیادہ ذمہ داری افغان حکومت کی ہے کہ وہ جنگ چھوڑ کر مذاکرات کا راستہ اپنائے۔پاکستان نے عید کے فوری بعد، انٹرا افغان کانفرنس کرانے کا اعلان کیا تھا، لیکن افغان صدر اشرف غنی کے مطالبے پر ملتوی کیا گیا تھا، اب بھی اس کانفرنس سے امن کی راہ نکل سکتی ہے، مگر اس کیلئے کابل حکومت کو قربانی دینی ہوگی طالبان بھی فی الحال کابل پر قبضے کے خواہشمند نہیں، لیکن وہ موجودہ حکومت کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔اب سلامتی کونسل نے بھی افغانستان میں تمام فریقین کو جنگ بندی کرکے مذاکرات کی راہ اپنانے کا مطالبہ کیا ہے۔اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ مذاکرات پر مائل افغان حکومت کیوں اور کس کے کہنے پر جنگ پر تیار ہوئی ہے اور کونسا ملک خانہ جنگی کی آگ میں ایندھن ڈال رہا ہے۔اب دنیا کی نظریں کھل جانی چاہئے اور پاکستان کے پالیسی کو بھی تسلیم کرنا چاہئے۔سلامتی کونسل کے اراکین صورتحال کا بغور جائزہ لے کر امن کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرائیں تاکہ پرامن اور مستحکم افغانستان کا خواب پورا ہو سکے پاکستان پر الزامات سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔کیونکہ پاکستان پہلے ہی افغانستان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بھرپور انداز میں نبھا چکا ہے اوراس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ افغانستان میں امن سے پاکستان کا امن وابستہ ہے اور دوسری صورت میں اگر افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوتا ہے یہاں وہاں بدامنی کا دور دورہ ہو تو لازمی طور پر اسکے منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوتے ہیں‘جس سے بچنے کے لئے احتیاط ضروری ہے۔