ہوتا یہ ہے کہ جہاں کچھ آسامیاں نکلتی ہیں ان کو پُر کرنے کیلئے جو کچھ خاص تعلیم یا تجربہ وغیرہ درکارہوتاہے اُسکے مطابق موزوں امیدواروں کو بھرتی کر لیا جاتا ہے۔ پھر ان کو اس کی ضرورت کے مطابق ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر اس پوسٹ پر کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ہر محکمے کی ایک خاص ضرورت ہوتی ہے اور اُس ضرورت کے مطابق بھرتی شدہ لوگوں کو اس کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور ٹریننگ کی مدت پوری ہونے پر بندہ کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ ہر محکمے کی اپنی ضرورت ہوتی ہے اور اس کیلئے خاص ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔ ایک محکمہ ایسا بھی ہے کہ جس میں تعلیم کی تو ضرورت ہوتی ہے مگر اس کیلئے کسی ٹریننگ کی ابھی تک کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور وہ ہے کالج کے اساتذہ۔ پرائمری سے ہائی سکول تک کے اساتذہ کیلئے مختلف ٹریننگ ضروری خیال کی جاتی ہیں مثلاً پی ٹی سی،سی ٹی۔ بی ایڈ وغیرہ مگر کالج کے اساتذہ کیلئے کسی قم کی ٹریننگ کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ کالج کے استاد کیلئے یہی کافی سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے مضمون میں ماسٹر کی ڈگری رکھتاہو اور بس۔ یہ ضروری نہیں کہ اُسے پڑھانے کیلئے کوئی ٹریننگ دی جائے حالانکہ پرائمری سے لے کر ہائی سکول تک کیلئے اساتذہ کی ٹریننگ کو لازمی خیال کیا جاتا ہے مگر کالج کے اساتذہ کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مضمون میں اچھی ڈویژن سے پاس ہو۔ یوں تو دیکھا گیا ہے کہ اپنے مضمون میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری کا حامل شخص ایک اچھا کالج لکچرر ثابت ہوتا ہے لیکن اگر اُس کو اپنے مضمون پر عبور نہیں ہے تو اُس کے ساتھ ہلا گلا لگاہی رہتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات طلباء کی اپنے مضمون کیلئے جو ضروری ابتدائی تعلیم ہوتی ہے وہ حاصل نہیں کی ہوتی جو طلباء کیلئے اگلی تعلیم میں دقت کا سبب بنتی ہے اور یہ بات کالج اساتذہ کیلئے بھی دقت کا سبب بنتی ہے اس لئے کہ کالج میں تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ طلباء اس مضمون کے ابتدائیہ سے واقف ہیں اور اگر ایساہو کہ بعض مضامین کیلئے ابتدائی علم ضروری ہو اور طلباء اُسے پچھلی جماعتوں میں پڑھ کے نہ آئے ہوں تو اساتذہ اور طلباء دونوں کو مشکل پڑتی ہے، عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کسی بھی مضمون میں (خصوصاً سائنس کے مضامین میں) ابتدائی علم اگر نہ ہو جو کہ عام طو رپر میڑک میں چھوڑ دیا جاتا ہے تو طلباء کو اگلا حصہ جو کہ کالج میں ہوتا ہے اس کے سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ میٹرک میں یا ایف ایس سی میں مضامین کا بہت سا حصہ نہیں پڑھایا جاتا (اسلئے کہ وقت کم ہوتا ہے) اور اتنے پر ہی زور دیا جاتا ہے کہ جس سے طالب علم اچھی ڈویژن میں پاس ہو جائے۔ اور جو حصہ چھوڑا جاتا ہے وہ اگلی جماعتوں کیلئے ضروری ہوتا ہے اور اگر نہ پڑھایا جائے (جو کہ عموماً ہوتا ہے) تو طالب علم کو اگلا حصہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ہمارے ہاں اساتذہ عام طور پر اُس حصے پر زور دیتے ہیں کہ جس سے طالب علم اچھی ڈویژن سے پاس ہو جائے اور بہت سے حصے کو چھوڑ دیتے ہیں، اور جس حصے کو چھوڑا جاتا ہے وہ دراصل اگلی کلاسوں کیلئے ضروری ہوتا ہے اسی لئے طلباء عموماً ایف ایس سی میں اچھے نمبر نہیں لے پاتے کہ جو حصہ ان کے اس کورس کیلئے ابتدائی طور پر ضروری ہوتا ہے وہ انہوں نے پڑھا ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ کسی بھی پرچے میں اچھے نمبر لینے کیلئے ایک خاص حصہ تیا ر کر لیا جاتا ہے اور بہت کچھ چھوڑ دیا جاتا ہے جس کا نقصان طالب علم کو اگلی جماعتوں میں ہوتا ہے۔گو وہ اس جماعت میں اچھے خاصے نمبر لے لیتا ہے۔ ہمارے ہاں سلیبس کی تقسیم اس طرح سے ہے کہ ایک طالب علم سلیبس کا بہت سا حصہ چھوڑ کر بھی اچھے خاصے نمبرلے کر پاس ہو جاتا ہے اس طرح وہ سرٹیفیکیٹ میں بہت اچھے نمبر لیتا ہے مگر مکمل علم سے بے بہرہ رہ جاتا ہے۔ جو اُسے عملی زندگی میں ہمیشہ تنگ کئے رکھتا ہے۔ اس کا علاج صرف یہی ہے کہ پرچہ ایسا بنایا جائے کہ کہ جو کمپری ہینسو ہو۔ یعنی پورے مضمون کا احاطہ کرتا ہو۔ مگر ہوتا ایسا نہیں ہے۔ طلباء ایک خاص حصہ تیار کر لیتے ہیں اور مضمون میں سو فی صد نمبر لے جاتے ہیں مگر علم کے لحاظ سے کمزور رہ جاتے ہیں۔