سیاحت اور سہولیات۔۔۔۔۔۔۔۔

موجودہ دور اقتصادیات اور معیشت میں، سیاحت کے شعبے کی بطور صنعت ترقی میں مضمر ہے۔اس وقت بہت سے ممالک ایسے ہیں، جن کی معیشت کا انحصار ہی سیاحت پر ہے۔ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جدید سہولیات اور تفریح کے مواقع پیدا کر کے زیادہ سے زیادہ عالمی سیاحوں کو راغب کیا جائے۔سیاحتی معیشت کے حامل اکثر ممالک میں لوگوں کی دلچسپی کا صرف ایک آدھ قدرتی عنصر ہی پایا جاتا ہے، اور وہ بھی اپنی انفرادی حیثیت میں اچھوتا پن اور کشش نہیں رکھتا، مگر مصنوعی طریقے سے اس فطری ذریعہ کی خوبصورتی اور کشش بڑھائی جاتی ہے۔اب متحدہ عرب امارات میں گرم موسم، وسیع صحرا اور محدود ساحلی پٹی کے سوا قدرتی خصوصیت کیا ہے، مگر وہاں کے حکمرانوں نے مصنوعی جزیرے، سمندر کے ساتھ بلند و بالا عمارات، شجرکاری سے موسم کی تبدیلی اور سب سے بڑھ کر سیاحوں کیلئے امن کا ماحول بنا کر دنیا کو اپنی طرف راغب کیا۔بہت سے افریقی ممالک میں صرف جنگل اور جنگلی جانور ہیں ان کو ہی سنبھال کر اور سفاری پارک بنا کر دنیا سے فطرت کے متلاشی افراد کو ترغیب دیتے ہیں۔مالدیپ اور ماریشش چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ممالک ہیں۔ان جزائر کو باہم ملانے اور سمندر میں سہولیات بڑھانے سے وہاں کشش پیدا کی گئی۔مصر جیسا ملک تاریخی آثار قدیمہ کے باعث لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک اپنے موسم، قدرتی ماحول اور جدید سہولیات کیلئے مرغوب ہیں اور یہ بھی صرف گرمیوں کی حد تک ہی قابل سفر ہیں، سردی میں زندگی منجمد ہو جاتی ہے۔اگر ساری دنیا میں نظر دوڑائی جائے تو آسانی سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ فطرت کی جو نوازشات ایک ایک کر کے مختلف ممالک کو قدرت نے عطا کی ہیں، وہ تمام پاکستان کو فراخ دلی سے عطا ہوئی ہیں۔ہمارے پاس بلند و بالا پہاڑوں کے طویل سلسلے ہیں ان کے درمیان سر سبز و شاداب وادیاں ہیں۔شفاف پانی کے قدرتی چشمے اور لہراتے دریا ہیں۔لہلہاتے میدان اور وسیع صحرا بھی ہیں۔ طویل ترین ساحل ہے۔چاروں موسم اپنے پورے جوبن کے ساتھ اترتے ہیں اس کے علاوہ سکھ مذہب، بدھ مت اور ہندوؤں کے قدیم اوراہم ترین مقامات اور یادگاریں بھی پاکستان میں ہیں جو ان مذاہب کے پیروکاروں کیلئے بہت بڑی کشش کا باعث ہیں لیکن مقام افسوس ہے کہ ہم سفر اور رہائش کی سہولیات کی کمی کے باعث ان تمام قدرتی اور جغرافیائی مواقع سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔اس سال عید قربان کے فوری بعد خیبرپختونخوا کے شمالی پہاڑی علاقوں اور مری کی طرف لاکھوں خاندانوں نے سفر کیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ سیاحت کے مطابق صرف اس صوبے میں 27لاکھ افراد آئے یہ تمام روایتی سیاحتی مقامات سوات، کالام‘ ناران‘ کاغان اور گلیات و نتھیا گلی میں ایک ہی وقت داخل ہوئے، جس سے محدود سڑکیں جام ہو گئیں اور لوگ پھنس گئے ہوٹل اور ریسٹ ہاؤسز بھر گئے، کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا، پٹرول اور ڈیزل بھی ختم ہوگیا، حتی کہ اے ٹی ایم بھی خالی ہو گئے۔اگر یہ صورتحال صرف مردوں یا نوجوان لڑکوں کے ساتھ پیش آتی تو یہ ایڈوانچر بن جاتا، مگر اس اذیت ناک کیفیت سے خواتین اور بچے بھی دوچار ہوئے۔موسم برسات کی شدت کے باعث کئی مہلک حادثات بھی ہوئے‘ لینڈ سلائیڈنگ سے راستے بھی بند ہوئے جو فیملیز دو دن کیلئے آئی تھیں، وہ ہفتہ بھر کیلئے پھنس گئیں تو معاملات خراب ہونے ہی تھے۔اس لئے قدرتی نظاروں اور فطری ماحول کے باوجود‘ ایسی سیاحت تکلیف بن جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا کی حکومت نے سیاحت کے فروغ کیلئے کئی اقدام اٹھائے ہیں، لیکن ان سے لطف اٹھانے اور تفریح طبع کیلئے ضروری ہے کہ ہر علاقے میں ایک حد سے زیادہ گاڑیوں اور سیاحوں کا داخلہ روکا جائے اور نئے علاقوں کی طرف متوجہ کیا جائے، جیسے اس سال اپر دیر اور کمراٹ کی طرف بھی کثیر تعداد میں سیاح آئے، یہ ایک نیا سیاحتی مقام ہے جو مخصوص جغرافیائی محل وقوع کے باعث نظروں سے اوجھل تھا، اسی لئے ابھی تک فطرت کی فراوانی سے مالا مال ہے، لیکن اس سال ایک اور سنگین مسئلے نے ان علاقوں میں سر اٹھایا ہے، حکومت کی سیاحت کے فروغ کی کوششیں اپنی جگہ، مگر اس کیلئے سب سے پہلی اہم ترین ضرورت محفوظ سفر کیلئے سڑکوں کی تعمیر ہے، جو سڑکیں کھلی ہیں، وہ ہر سال بارشی پانی اور لینڈ سلائیڈنگ سے ٹوٹ جاتی ہیں، اس کے بعد ان علاقوں میں رہائش کی عارضی اور مستقل سہولت کی فراہمی ہے، پھر کھانے پینے کی اشیا اور تیل پیٹرول کی مناسب قیمت پر دستیابی ہے، جب تک اندرون ملک سے آنے والوں کو سکون اور امن کے ساتھ فطرت سے لطف اندوز ہونے کی سہولیات نہیں مل سکتی، باہر سے کسی کے آنے کی امید نہ رکھی جائے۔ اب تو یہ بھی ضروری ہو گیا ہے کہ خاص علاقے میں گاڑیوں کے داخلے کو محدود کر دیا جائے اور فیملیز کیلئے الگ جگہیں مختص کی جائیں، جہاں منچلے نوجوانوں کو جانے کی اجازت نہ ہو، پنجاب حکومت نے مری میں گاڑیوں کا داخلہ بند کرکے کچھ آسانی کی کوشش کی ہے، مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مری جانے والے لوگ بھی نتھیاگلی اور گلیات کی طرف آکر خیبرپختونخوا میں پھنس جاتے ہیں۔ اگر حکومتی ذرائع سے سیاحت کو منظم کیا جائے اور امن کی ضمانت دی جائے تو پاکستان میں سیاحت کیلئے ہر دلچسپی کا سامان موجود ہے، لیکن بدنظمی کی وجہ سے سیاحت کی راحت و فرحت بھی اذیت بن جاتی ہے۔