ہمارے حصے کی خوشیاں اور کرکٹ۔۔۔۔۔۔۔۔

اوول کی فتح سے پاکستان جو کرکٹ کے حوالے سے زیادہ پہچان نہیں رکھتا تھا یکدم اس کھیل میں ایک نئی قوت کے طورپر دنیا کے سامنے آگیا، کاردار، فضل محمود، حنیف محمد، امتیاز احمد، مقصود احمد، خان محمد، محمود حسین، ذوالفقار احمد، شجاع الدین وغیرہ پاکستان کے ہر گھرانے کے ہیرو ہو گئے، ان دنوں نہ تو اخباروں کی کثرت تھی اور نہ ہی ان میں تصویروں کی اشاعت کچھ زیادہ ہوتی تھی، اوول ٹیسٹ کی چند تصاویر جو پاکستانی عوام تک پہنچیں، ان میں سرفہرست فضل محمود کی دو تین تصویریں تھیں اور یا پھر خان محمد کی گیند پر کلین بولڈ ہوتے سرلینن ہٹن کی تصویر تھی، تقریباً دو برس بعد ایک کچی عمر میں پنکھوں والے جہاز سپر کانسٹلیشن کے ذریعے میں انگلستان روانہ ہوگیا، اس موسم گرما میں ویسٹ انڈیزکی تباہ کن کرکٹ ٹیم انگلستان کے دورے پر آئی اور اس میں ان زمانوں کے تین بڑے کھلاڑی جو ”تھری ڈبلیوز“کہلاتے تھے، یعنی فرینک وارل، ویکس اور والکاٹ بھی شامل تھے، میں ان دنوں نوٹنگھم کے ٹیکنیکل کالج میں ٹیکسٹائل انجینئرنگ کے پہلے سال میں تھا، ویسٹ انڈیز کی ٹیم نوٹنگھم میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ کھیلنے کیلئے پہنچی اور مجھے خبر ہو گئی کہ وہ کون سے ہوٹل میں مقیم ہے، ان کے علاوہ انگلینڈ کی پوری ٹیم بھی اسی ہوٹل میں فروکش تھی، یقین مانئے کہ مجھے اس خیال سے بخار سا ہونے لگا کہ دنیائے کرکٹ کے عظیم ترین کھلاڑی جن کی کارکردگی مجھے زبانی یاد تھی، اسی شہر نوٹنگھم کے فلاں ہوٹل میں قیام پذیر ہیں اور انہیں سچ مچ دیکھا جاسکتا ہے، لیکن ان کے ساتھ ملاقات کس بہانے کی جاسکتی ہے، یہ مسئلہ حل نہ ہوتا تھا، اس موقع پر خالد کوکی میری مدد کو پہنچا، وہ دراصل انگلستان میں مختلف معاملات میں میرا مرشد تھا، یعنی مقامی رسوم ورواج کیا ہیں، ملاقات پر کیا کہنا ہے اور رخصت ہوتے ہوئے اظہار کی صورت کیاہوگی، عام دنوں میں کون سا لباس پہننا ہے، اتوار کے روز انگریزی تہذیب کے مطابق کیسے کپڑے زیب تن کرنے ہیں، خواتین سے راہ ورسوم کے بااخلاق رویئے کون سے ہیں، ہفتے کی شب اگر آپ کسی پارٹی پر مدعو ہوں تو کون سا لباس پراپر ہے اور وہاں ہر فقرے کے آخر میں پلیز کا اور تھینک یو کا اضافہ کرنا ہے، تو خالد کوکی نے اس مسئلے کا حل بھی نکال لیا”تم اپنا سیاہ پارٹی سوٹ پہنو، بو ٹائی لگاؤ، گلے میں اپنا کیمرہ ڈالو، فلیش گن اور اس کے بلب میں مہیا کردوں گا، اعتماد سے چلتے ہوئے ہوٹل کے فرنٹ ڈیسک پر جاکر کہنا کہ میں براہ راست پاکستان سے آرہا ہوں اور ایک اخبار ”پاکستان ٹائمز“کا نمائندہ خصوصی ہوں اور مجھے کرکٹ کے کھلاڑیوں کے انٹرویو کرنے ہیں“”باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن اگر انہوں نے کوئی ثبوت وغیرہ مانگا تو پھر کیا ہوگا، جعل سازی کے الزام میں دھرلیاگیا تو“کوکی ہنسنے لگا”اوئے بے وقوف اس ملک میں تو لوگ پاکستان کے نام سے واقف نہیں، کسی پاکستانی ٹائمز اخبار سے کہاں واقف ہوں گے‘ یہ انگریز لوگ چونکہ خود جھوٹ نہیں بولتے، اس لئے دوسروں کے جھوٹ کو بھی سچ مان لیتے ہیں، تم بے فکر ہو کر چلے جاؤ“اور بالکل وہی ہوا جوکوکی نے کہا تھا، مجھے ایک سیاہ سوٹ اور بوٹائی میں ملبوس دیکھ کر ہوٹل کا عملہ فوراً مودب ہوگیا، فرنٹ ڈیسک پر جو منیجر تھا وہ میرے کیمرے کے ہمراہ فلیش گن دیکھ کر بے حد متاثر ہوا کہ ان دنوں جب کہیں کوئی تصویر فلیش بلب سے اترتی تھی تو دھوم پڑ جاتی تھی، اس نے بتایا کہ بیشتر کھلاڑی لاؤنج میں گپیں لگا رہے ہیں یا مشروبات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اس نے مجھے انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے تمام کھلاڑیوں کے روم نمبر بھی دے دیئے، لاؤنج کے بار کاؤنٹر پر بیٹھے قدرے فربہ ٹام گریونی کو میں نے فوراً پہچان لیا، اس کے ہمراہ وکٹ کیپر گاڈ فرے ایونز تھا اور برابر میں خوبصورت بیٹسمین پیٹرمے براجمان تھا، یہ حضرات بھی میرے گیٹ اپ اور فلیش گن سے بے حد متاثر ہوئے، میرے احمقانہ سوالوں کے جواب نہایت سنجیدگی سے دیئے، تصویریں اتروائیں بلکہ میرے ہمراہ بھی اتروائیں، جب میں نے سرلین ہٹن کو دیکھا تو مجھے وہی تصویر یاد آگئی جس میں وہ خان محمد کے بال پر بولڈ ہو رہا ہے اور میں نے پہلا سوال یہی پوچھا کہ وہ بال کیسا تھا جس نے آپ جیسے عظیم کھلاڑی کو بھی کلین بولڈ کردیاتوا س نے ہنس کر کہا ”شاید وہ مجھے نظر ہی نہیں آیا تھا“اسی طور میں نے انگلینڈ کے بقیہ کھلاڑیوں سے بھی ملاقات کی اور ان کی تصاویر اتاریں، اب ویسٹ انڈیز کی باری تھی معلوم ہوا کہ وارل جو بعد میں سرفرینک وارل ہوا، اپنے کمرے میں ہے اور میرا منتظر ہے، اب یہ جو سیاہ آندھی وارل تھے، ان کے ہمراہ ویکس بھی اتنے ہی سیاہ اور توانا تھے سچی بات ہے مجھے ان سے بہت ڈر لگا تھا لیکن سب سے یاد گار ملاقات ویسٹ انڈیز کے نوجوان اور تیزی سے ابھرتے ہوئے بیٹسمین روہن کنہائے کے ساتھ ہوئی، وہ تقریباً میری عمر کا تھا اور ہم کسی حد تک دوست بن گئے، اگلے روز ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے ٹیسٹ کے دوران میں کنہائے کے ذاتی مہمان کے طور پر پویلین میں بیٹھا، کچھ عرصہ تک ہمارے درمیان خطوط کا تبادلہ بھی ہوا، نوٹنگھم کے اس ہوٹل میں کھینچی ہوئی تصاویر کی دو دو کاپیاں بعد میں میں نے ان کھلاڑیوں کے ذاتی پتوں پر روانہ کیں اور انہوں نے ایک تو خود رکھ لی اور دوسری پر میرے نام کے آٹو گراف سائن کرکے مجھے روانہ کردی، یہ آٹو گراف شدہ تصاویر تقریباً بیس برس پہلے تک میرے پاس تھیں پھر کسی پرانے صندوق کے ساتھ گم ہو گئیں۔کرکٹ کی ان پرانی کہانیوں کو بیتے نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، میں اب بھی کرکٹ میں دلچسپی رکھتا ہوں لیکن وہ دیوانگی اور جنون کب کے رخصت ہو چکے تھے کہ ایک اور دیوانگی اور جنون نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور ہم سوچتے تھے کہ ہمارے حصے کی خوشیاں کون چھین کر لے گیا، کیا وہ کبھی ہمیں واپس مل سکیں گی یا ہم ہمیشہ دوسروں کے خوش چہرے ہی حسرت سے دیکھتے رہیں گے، شکر ہے ورلڈ الیون کی آمد سے وہ خوشیاں ملنی شروع ہو گئی ہیں۔