طالبان پر امن طریقے سے کابل میں داخل ہو گئے ہیں‘ یہ نہ تو حیران کن واقعہ ہے‘ نہ ہی غیر متوقع ہے، البتہ اندازوں سے کچھ دن پہلے ہو گیا یہ افغان عوام کیلئے حقیقی فتح کا دن ہے کہ غیر ملکی افواج اور ان کے پروردہ حکمرانوں سے نجات مل گئی‘فی الحال تو طالبان کے مقابل یا مخالف کوئی قوت نظر نہیں آ رہی۔طالبان نے جو وعدہ عالمی برادری سے کیا تھا‘اس پر عمل پیرا ہیں‘انہوں نے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے۔سرکاری ملازمین کو ڈیوٹی پر آنے کا کہا گیا ہے غیر ملکی سفارت خانے محفوظ ہیں‘اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اپنے سفارت خانے بند کر کے بھاگ رہے ہیں‘ لیکن یہ ان کے اپنے اعمال کا خوف کا نتیجہ ہے۔ا سکے برعکس چین، روس، پاکستان اور ترکی سمیت متعدد ممالک کے سفارت خانے کام کر رہے ہیں‘ہمارے لئے بھی یہ لمحہ خوشگوار احساسات کا ہے کہ کابل پر قبضہ کیلئے کوئی خون خرابہ نہیں ہوا۔سابق صدر اشرف غنی نے فرار ہوکر افغان عوام کو یہ بھی بتا دیا کہ اس کا افغان سرزمین یا عوام سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔جن سیاسی رہنماؤں کا افغانستان کی سرزمین سے تعلق تھا، وہ سب اگرچہ گزشتہ دور میں اشرف غنی کے ساتھ رہے‘ لیکن وہ ملک سے بھاگ نہیں گئے امید ہے کہ افغان سیاسی قیادت اس نئی صورتحال کے مطابق فیصلے کرے گی اور شاید نصف صدی کے بعد ایسا موقع آیا ہے کہ کسی غیر ملکی دبا ؤکے بغیر، افغان عوام اور قیادت اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں گے۔اس موقع پر پاکستان کو بھی بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے پہلی بار افغان معاملے پر غیر جانبدارانہ فیصلہ کیا اور امن عمل میں سہولت کاری کی‘اگر اشرف غنی چند ہفتے پہلے حکومت چھوڑ دیتے تو شاید آج کابل میں طالبان کی جگہ ایک عبوری سیٹ اپ موجود ہوتااس وقت کابل سے باہر دو مقامات پر افغان قیادت عبوری انتظامی سیٹ اپ کیلئے مشاورت کر رہی ہے ایک تو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں‘ جہاں طالبان وفد بھی موجود ہے‘ جبکہ امریکہ اور پاکستان کے نمائندے بھی اور افغانستان سے عبداللہ عبداللہ سمیت سابق حکومت کے عہدیدار بھی موجود ہیں ایک دوسرا وفد اسلام آباد آیا ہوا ہے‘ جس میں اسمبلی سپیکر سمیت دس رہنما شامل ہیں اب اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان کے پرامن مستقبل کی ضمانت طالبان ہی ہیں، ان کو ملک میں اچھی حکمرانی اور قیام امن کے علاوہ، کوئی سیاسی چیلنج نہیں ہے پاکستان کو یہ حقیقت مد نظر رکھتے ہوئے دیگر سیاسی رہنماؤں سے اپنے تعلقات رکھنے ہوں گے یہ بات بھی ہمارے لیے خوش کن ہے کہ بھارت بھی پہلی بار افغانستان سے بے دخل ہو گیا ہے‘اس کیلئے یہ پریشان کن صورتحال ہے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ کابل حکومت کے ساتھ مل کر، پاکستان کے خلاف بھارت کے قائم کردہ‘دہشت گردی کے اڈے بھی ختم کرائیں‘ ابھی پاکستان کے دشمنوں کو افغانستان میں تلاش کرنا اور ان کو ختم کرنا باقی ہے۔ہمیں بھی کسی ایسی شخصیت کو نگران حکومت میں شامل کرانے سے اجتناب کرنا ہوگا، جو طالبان کو قبول نہ ہو۔کابل میں ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں، اس اصول پر عمل پیرا رہ کر محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہوگا۔