افغانستان کی تین لاکھ فوج ہے اور اسے امریکہ نے نہ صرف تربیت دی ہے بلکہ اسے ہر قسم کے جدید اسلحہ سے لیس کر رکھا ہے، یہی وجہ کہ افغانستان کی فوج طالبان سے جنگ لڑنے کی اہلیت رکھتی ہے، یہ الفاظ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی گفتگو کا خلاصہ ہے جو اس نے جولائی کی 8تاریخ کو ایک پریس کانفرنس میں افغانستان سے متعلق سوالات کے جواب میں کی تھی، بائیڈن نے افغانستان کی فوج پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ 15اگست 2021 کو امریکی صدر کے الفاظ اُس کے اپنے ہی گلے پڑ چکے ہیں، صورتحال نہایت ہی تیزی کے ساتھ بدل چکی ہے، طالبان ایک کے بعد ایک صوبے پر قبضہ کرنے کے بعد ملک کے دارالحکومت کابل میں صدارتی محل پر بھی قابض ہوچکے ہیں اور اشرف غنی اپنا ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں افغانستان کی موجودہ صورتحال نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے، امریکہ اور اس کے اتحادی 20سال تک افغانستان پر قابض رہے اور امریکہ نے یہاں بے تحاشہ وسائل اور پیسہ لگایا، اعداد وشمار کے مطابق امریکہ نے 2.5 کھرب ڈالر افغانستان میں لگائے۔ اس دوران افغانستان میں 4مرتبہ حکومت بنائی گئی جس میں 2مرتبہ حامد کرزئی ملک کے صدر رہے جبکہ 2ہی مرتبہ اشرف غنی ملک کے صدر رہے، ملک کے اندر متعدد ادارے قائم کیے گئے جس میں قابل ذکر افغان نیشنل آرمی کا ادارہ ہے، امریکہ کے مطابق اُس نے گذشتہ 20سالوں کے دوران 3لاکھ تک افراد کی آرمی بنائی، جس سے توقع کی جا رہی تھی کہ یہ فوج طالبان کا مقابلہ کر پائے گی، لیکن حقیقتاً امریکہ نے افغانستان میں ایک ایسی فوج پر وقت اور پیسے کی انوسٹمنٹ کی جو کہ کسی بھی سطح پر امریکہ پر ہی انحصار کرنے والی فوج رہی، ان کا سارے کا سارا دارومدار امریکی فوج پر ہی رہا، امریکی فوج کی انٹیلی جنس کی معلومات کی بناء پر طالبان کے خلاف کاروائیاں کرتیں جس میں کبھی کبھار انہیں وقتی کامیابی بھی مل جایا کرتی، لیکن جو نہی امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحا معاہدے پر دستخط ہوئے اور امریکیوں نے افغانستان سے نکلنے کا سلسلہ شروع کیا تو افغان نیشنل آرمی کی امریکہ کی طرف سے ملنے والی انٹیلی جنس کی معلومات اور ہوائی مدد بند ہوگئی اور اسی دوران طالبان نے افغانستان کے شمالی اضلاع پر اپنا کنٹرول بڑھانا شروع کیا اور افغانستان کی نیشنل آرمی بغیر کسی مزاحمت کے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے لگی۔ ملک کا بڑے سے بڑا شہر طالبان کے کنٹرول میں آنے لگا اور امریکہ کی بنائی ہوئی فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔اس دوران افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کی جانب سے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی، ان کی جانب سے پاکستان کو ہی افغانستان میں طالبان کی کامیابی کا ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا تھا، سوشل میڈٖیا پر پاکستان کے خلاف باقاعد کئی مہم چلائی گئی جن میں سے ایک تو بین الاقوامی سطح پر بھی کافی زیادہ وائرل ہوئی، اس مہم کو #SanctionPakistanکا نام دیا گیا جس کی باقاعدہ ابتداء یورپ کے چند ممالک میں موجود اٖفغان پناہ گزینوں کی جانب سے پاکستان کے سفارت خانوں کے سامنے احتجاج کے دوران ہوئی، اس ٹرینڈ کے ذریعے افغان پناہ گزینوں نے پورا سوشل میڈیا سر پر اُٹھائے رکھا تھا، یہی ٹرینڈ یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ اافغانستان اور انڈیا سے بھی وائرل ہوتا رہا، بلکہ اس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ اس ٹرینڈ کو جعلی طریقوں سے بوسٹ بھی دی گئی تاکہ پوری دُنیا میں پاکستان مخالف بیانیے کو تقویت دی جاسکے۔ میں چونکہ سویڈن میں رہتاہوں، تو یہاں تو ہم پاکستانیوں نے بذاتِ خو دبھی یہ مشاہدہ کیا کہ کس طرح افغان پناہ گزینوں نے پاکستان مخالف فضا بنانے کی کوشش کی۔پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی بھر پور کوشش کی جاتی رہی، لیکن آج کی دُنیا ڈیجیٹل کی دُنیا ہے، اب ہر بیانیے کا مخالف بیانیہ ایک ہی قوت کے ساتھ پوری دُنیا میں پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ہر ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانا ممکن نہیں رہا۔ جس کی کئی وجوہات ہیں، مثال کے طور پر!دوحا، قطر میں طالبان کو ایک طرح کا انٹرنیشنل ہیڈ کوارٹر امریکہ نے مہیا کیا تھا نہ کہ پاکستان نے۔ اشرف غنی کی حکومت کو امریکہ اور طالبان کے مذاکراتی عمل سے امریکہ نے ہی طالبان کی شرط پر باہر رکھا تھا نہ کہ پاکستان نے۔ مذاکرات سے معاہدے کے دستخط ہونے تک افغانستان کی حکومت پر طالبان کو فوقیت امریکہ دیتا رہا ہے نہ کہ پاکستان۔گذشتہ ایک ہفتے دوران بین الاقوامی میڈٖیا میں مذکورہ بالا نقاط و سوالات کو تواتر کے ساتھ اُٹھایا جا رہا ہے، امریکہ کے افغانستان سے انخلاء پر امریکہ اور مغربی ممالک میں سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ امریکہ پر کُھل کر تنقید ہو رہی ہے اور ان سے سوال کیے جا رہے ہیں کہ 20سال تک امریکی عوام کے ٹیکس کا پیسہ افغانستان کی آباد کاری کے نام پر لگایا گیا، ایک مکمل آرمی کھڑی کی گئی، ائیر فورس بناکر دی گئی لیکن اس سب سے کے باوجود افغانستان تو پھر سے طالبان کے قبضے میں چلا گیا جس کا مطلب ہے کہ امریکی عوام کی ٹیکس کا پیسہ مکمل طور پر ضائع کیا گیا۔اشرف غنی کی حکومت نے اپنے ملک کی آباد کاری کیلئے کچھ بھی نہیں کیا، اب تک کی اقتدار میں کوئی بھی قابلِ ذکر تعمیری کام نہیں کیا۔افغانستان کے لوگ اب بھی علاج کیلئے پاکستان آتے ہیں، حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی تک تمام حکومتوں میں بھرپور کرپشن ہوتی رہی، دُنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں افغانستان پہلے نمبر پر رہتا چلا آیا ہے۔ گزشتہ 20سالوں میں کوئی عملی نظام نہیں بنایا جاسکا بلکہ ایک کاغذی حکومت تھی اور کاغذی نظام تھا جو کہ امریکہ نے بنا کے دیا تھا اور امریکہ کے جاتے ہی زمین بوس ہوگیا۔